خلاصہ: اس تحریر میں جنگ خیبر کی مختصر داستان اور حضرت امیر (ع) کی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔
خیبر، مدینہ سے آٹھ منزل دور ایک سرزمین کا نام ہے،رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں یہاں یھودیوں کے سات قلعے ہوا کرتے تھے۔جنکے نام ہیں: ناعم، تموص، کتیبہ، نطاة، شق، وطیح و سلالم.
سن ۴ ھجری (یا ۷ ھجری) میں ۲۴ رجب کو اس سرزمین پر لشکر کفر اور لشکر اسلام کے بیچ گھمسان جنگ ہوئی تھی،جسے تاریخ میں جنگ خیبر کہا جاتا ہے۔اس جنگ میں بھی مسلمانوں نے جان نثاری اور جانفشانی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کڑی محنت و مشقت کے بعد لشکر خدا ظفریاب ہوا۔
لشکر اسلام کی کامیابی میں حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی بہادری اور شجاعت زبانزد خاص و عام تھی، بلکہ تاریخی شواہد اس بات کی نشاندھی کرتے ہیں کے شیر خدا علی مرتضی (علیہ السلام) کی وجہ سے ہی فتحہ حاصل ہوئی تھی۔
تاریخ میں ملتا ہے کہ کس طرح مولائے کائنات نے جان کی بازی لگا کر اس جنگ میں یھودیوں کو شکست دی،
واقعہ اس طرح ہے کہ،جب لشکر اسلام کو مسلسل شکست کا سامنہ کرنا پڑ رہا تھا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب عامر کو بھیجا اور وہ شہید ہو گئے پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ اآلہ وسلم) نے عمر بن خطاب کو بھیجا اور کچھ لوگوں کو ساتھ کیا لیکن یہ لوگ بھی ہار گئے ،اس حال عمر کے ساتھی انکو یھودیوں کی قدرت اور عظمت سے ڈراتے ہوئے اور عمر اپنے ساتھیوں کو لشکر کفر سے ڈراتے ہوئے واپس آگئے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درد شقیقہ اٹھا (سر درد) اور آپ آرام کرنے چلے گئے رات میں جب درد سے افاقہ ہوا تو پوچھا کہ دن میں کیا ہوا تو آپ (ص) کے لئے پورا ماجرا نقل کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’لاعطين الراية غدا رجلا يحبّ اللَّه و رسوله، و يحبّه اللہ و رسوله كرارا غير فرارلا يرجع حتى يفتح اللَّه على يديه‘‘ (۱) ’’کل میں علم اسکو دون گا کہ جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اسکا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے،وہ کرار و غیر فرار ہو گا،وہ اس وقت تک واپس نیہں آئے گا جب تک اللہ اسکے ذریعہ خیبر کو فتح نہ کرا دے ‘‘۔
ایسی ہی روایت اہل تسنن کی کتابوں میں بھی ہے۔ ’’روى البخاري و مسلم عن قتيبة عن سعيد قال حدثنا يعقوب عن عبد الرحمن الإسكندراني عن أبي حازم قال أخبرني سعد بن سهل أن رسول الله ص قال يوم خيبر لأعطين هذہ‘‘۔۔۔۔۔ بخاری اور مسلم اپنی کتابوں میں قتیبہ بن سعد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ’’لاعطين هذه الراية غدا رجلا يفتح اللَّه على يديه، يحب اللَّه و رسوله، و يحبه اللَّه و رسوله‘‘۔(۲) ’’کل میں یہ علم اسکو دون گا کہ جو اس وقت تک واپس نیہں آئے گا جب تک اللہ اسکے ذریعہ خیبر کو فتح نہ کرا دے،جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اسکا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے ‘‘۔
راوی کہتا ہے کہ اس رات سب اس اضطراب میں سوئے کہ کل کس کو علم ملے گا،اور جیسے ہی صبح ہوئی سب لوگ پیغمبر (ص) کے اطراف جمع ہو گئے اور ہر ایک کے دل میں یہ تمنا تھی کہ علم مجھکو مل جائے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز دی کہ علی(علیہ السلام) کہاں ہیں؟ کسی نے بتایا کہ حضرت علی کی آنکھ میں شدید تکلیف ہے وہ آرام کر رہے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ان کو بلایا جائے۔ مولائے کائنات آئے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا لعاب دہن حضرت علی (علیہ السلام) کی چشم مبارک پر لگایا اور انکے حق میں دعا کی،دعا کرتے ہی ایسے شفایاب ہوئے کہ گویا کوئی درد کبھی تھا ہی نہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علم کو مولا کے ہاتھ میں دیا۔
حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ان سے جنگ کروں گا تاکہ یہ بھی مسلمان ہو جائیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ اآلہ وسلم) نے نصیحت فرمائی،اے علی (ع) پہلے انسے نرمی سے بات کرئیے گا اور خدا کی طرف دعوت کیجئے گا انکو بتائے گا کہ ان پر خدا کے کون سے حقوق واجب ہیں،اور فرمایا : ’’فو اللَّه لان يهدى اللَّه بك رجلا واحدا خير لك من ان يكون لك حمر النعم ‘‘(۳) ’’خدا کی قسم اگر آپ کے ذریعہ ایک بھی آدمی ھدایت پاجائے توآپ کے لئے یہ بہتر ہے اس سے کہ آپ کے پاس لال بالوں والے اونٹوں کا گلہ ہو‘‘
سلمہ کہتا ہے کہ یھودیوں کی طرف سے مرحب رجز پڑھتا ہوا باہر آیا، اور مسلمانوں کے لشکر سے علی (علیہ السلام) بھی اس طرح رجز پڑھتے ہوئے نکلے : ’’انا الذى سمتني امى حيدره ۔۔ كليث غابات كريه المنظره ‘‘’’میں وہ ہوں کہ جسکی ماں نے اسکا نام حیدر (شیر) رکھا ہے۔۔ایسا شیرکہ جسکو دوسروں میں دیکھنے کی بھی تاب نہیں ‘‘
اور مرحب پر ایسا کاری وار کیا کہ وہ واصل جہنم ہو گیا اور مولا (ع) کامیاب لوٹے۔ یہ روایت مسلم نے اپنی صحیح میں بھی نقل کی ہے۔
ابو عبد اللہ حافظ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام ابی رافع سے نقل کرتے ہیں کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کو جنگ کے لئے روانہ کیا تو ہم بھی ساتھ چلے اور جب قلعہ کے قریب پہونچے تو شدید جنگ شروع ہو گئی اور اسی میں علی (علیہ السلام) کے ہاتھ سے سپھر گر گئی تو اس وقت علی(علیہ السلام) نے قلعہ کے دروازہ کو اکھاڑ لیا اور اسے سپھر بنا کر لڑنے لگے اور یہ دروازہ انکے ہاتھ میں اس وقت تک تھا جب تک ہم جیت نہیں گئے اور پھر جب جنگ ختم ہو گئی تو انہوں نے اس دروازہ کو زمین پر بھینک دیا۔ بعد میں ہم آٹھ لوگوں نے چاہا کہ اس دروازہ کو پلٹ دیں تو اسے ہلا بھی نہیں پائے۔(۴)
ایک اور روایت جناب جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل ہوئی ہے کہ علی (علیہ السلام) نے جنگ خیبر کے دن در خیبر کو ہاتھ پر بلند کیا اور مسلمان اس پر سے گذرے اور خندق کو پار کیا، بعد میں چالیس لوگوں نے چاہا کہ اس دروازہ کو جابجا کریں تو نیہں کر پائے۔ بعض روایات کے مطابق ستر لوگ مل کر اس در کو نہ ہلا پائے۔
ان تاریخی شواھد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کا تمام اصحاب کے درمیان ایک خاص مقام اور فضیلت ہے،لھذا عقل بھی اسی بات کی دعوت دیتی ہے کے افضل کو مفضول پر فوقیت حاصل ہے اور اسی لئیے ضروری ہے کہ رسول کے بعد اسی کا انتخاب کیا جائے جو سب سے زیادہ با فضل ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
(۱)ترجمہ مجمع البيان في تفسير القرآن، ج23، ص: 148(نور سافٹ ویر)
(۲)مجمع البيان في تفسير القرآن، ج9، ص: 182 سورہ فتح (نور سافٹ ویر)
(۳)ترجمہ مجمع البيان في تفسير القرآن، ج23، ص: 149
(۴)ترجمه مجمع البيان في تفسير القرآن، ج23، ص: 150
Add new comment