28 رجب وہ دن ہے کہ جس دن امام حسین علیہ السلام نے نانا کا مدینہ چھوڑ کر کربلا کی طرف حرکت کی تا کہ انبیاء کی محنت کو بچا سکیں مولا حسین علیہ السلام نے یہ طے کر لیا تھا کہ اپنا کچھ بچے یا نہ بچے بس خدا کا دین بچ جائے ۔
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھ کر دیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں حسین خداوندمتعال کی توحید کی گواہی دیتا ہوں جو یکتا ہے اور شریک نہیں رکھتا،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند متعال کے بندے(عبد)اور رسول ہیں اور حق تعاليٰ کی جانب سے رسالت کے ساتھ مبعوث ہوئے ۔جنت اور دوزخ حق ہے،بے شک قیامت آئے گی اور خداوند متعال مردوں کو قبروں سے اُٹھائے گا۔
و اني لَم أَخرُج أَشِراً وَ لابَطراً وَ لامُفسِداً وَ لاظالِماً و اِنَّما خَرَجتُ لِطَلَبِ الإصلاحِ فِي امّة جدّي أُرِيدُ أَن آمُر بِالمَعرُوفِ وَ أَنهي عَنِ المُنكَرِ وَ أَسيرَ بِسيرَةِ جَدّي وَ أبي علي بن ابيطالب فمَن قَبِلَني بِقَبُولِ الحَقِّ فَاللّه أولي بِالحَقِّ و َمَن رَدّ عَلَيِّ هذا أَصبِرُ حَتّي يقضِيَ اللّهُ بيني و بين القَومِ وَ هُوَ خَيرُالحاكِمِينَ وَ هذِهِ وَصِيَّتي اِلَيكَ يا أَخي! وَ ما تَوفِيقي اِلّا بِاللّه عَلَيهِ توكلت وَ اِليهِ أُنِيب.
میں نے تکبر و خود خواہی یا فساد و ظلم ایجاد کرنے کے لیے قیام نہیں کیا بلکہ میں نے قیام کیا ہے تاکہ اپنے جد بزرگوار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی اصطلاح کروں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اوراپنے والد نامدار علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی سیرت پر چلوں، پس جس شخص نے مجھے قبول کیا،حق کو قبول کیا ہے اور جو بھی مجھے ٹھکرادے تو میں صبر سے کام لوں گایہاں تک کہ خداوند میرے اور اس گروہ کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
اے بھائی!یہ آپ کے ہاتھوں میں میری وصیت ہے ‘‘وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب’’۔
بعد از ان خط کو بند کیا،اپنی مہر لگائی اور اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو دے دیا۔
محنت رسول بچانے کے لیے حسین بیٹوں اور بہنوں سمیت چل پڑے وہ نبی جو جس گھر میں جائے وہ بیت المطیبن بن جائے مجھے، جس گھر میں خود نبی رہتے ہوں اس گھر کا کیا عالم ہوگا، حسین کے لیے اس گھر کو چھوڑنا کتنا مشکل تھا، حسین نے کس وطن کو چھوڑا اور کس انداز میں چھوڑا سب سے پہلے آئے مزار نبی پر اپنے ہاتھ کو نبی کی قبر پر رکھا اور رو ،رو کے کہا یا رسول اللہ انا ابن بنتک ، اے اللہ کے رسول تیری بیٹی کا بیٹا ہوں نانا ، نانا تیرے امتی مجھے تیرے پاس رہنے نہیں دیتے ، نانا تیرا مدینہ چھوڑے جا رہا ہوں ، نانا آباد گھر چھوڑ کر جنگل کو جا رہا ہوں ، نانا رو اس لیے رہا ہوں میرے ساتھ وہ جا رہی ہے جو تیری مزار پر رات کے پردے میں آتی ہے نانا رات کے اندھیرے میں آتی ہے سنا ہے کہ ایک مرتبہ رات کے اندھیرے میں علی کی بیٹی مزار نبی پر آنے لگی لیکن مزار کا چراغ روشن تھا مولا علی فرماتے ہیں حسن بیٹا آگے بڑھ کر چراغ بجھا دو ، مولا حسن کہتے ہیں بابا میں ساتھ ہوں حسین ساتھ ہے آپ ساتھ ہیں ، علی رو کر کہتے ہیں چراغ روشن ہے وہاں سے سایہ پڑے کا میں علی نہیں چاہتا کہ میری بیٹی کے سایے پر بھی کسی کی نظر پڑے ، میں پوچھتا ہوں یا علی آپ کا کیا حال ہو گا جب یہی بیٹی آپ کے شہر میں بے مقنعہ و چادر آئی ہو گی رو ، رو کر کھتی تھی بابا تیرے شہر میں آئی ہوں آ دیکھ چادر نہیں ہے بدمعاشوں کا مجمع ہے بابا آ میرا خطبہ سن بابا آ دیکھ میں کن بدمعاشوں سے بات کر رہی ہوں ۔
ہو گیا پیامبر سے وداع وہاں سے قبر امام حسن پر آئے ، رو کر کہتے ہیں میرا مسموم بھائی میرا آخری سلام بھائی بھائی میں واپس نہیں آؤں گا ، اب آئے ماں کی قبر پر رو تے روتے ماں کی قبر پر ایسے لپٹ گئے جیسے بچہ ماں کی گود میں ماں سے لپٹا ہے ایک مرتبہ قبر سے آواز آئی ، او ماں کا پیاسا بیٹا ، او ماں کا غریب بیٹا ، ماں کا مسافر بیٹا ،رو کر کہا اماں تیرا مزار چھوڑے جا رہا ہوں ،اماں میں جا رہا ہوں ، تب زہرا ء مرضیہ کی آواز آئی بیٹا کوئی آئے نہ آئے تو جہاں جہاں جائے گا ماں ساتھ ساتھ آئے گی بیٹا ماں تیری مقتل میں آئے گی ۔تمام سے وداع کیا اور گھر واپس آئے ، میرے مولا کا صحابی ہے آنکھوں سے نابینا ہے صاحب کتاب (معالی السبطین) نے لکھا ہے کہ کانوں سے تھوڑا کم سنتا تھا ، یہ کہتا ہے میں نے پہلی مرتبہ نبی کے گھر میں رونے کی آواز سنی ، اس گھر سے نبی گئے اس گھر سے بتول بھی گئیں اس گھر سے حسن بھی گئے لیکن کسی پر بلند آواز سے رونے کی اجازت نہیں تھی میری زوجہ نے کہا نبی کے گھر سے رونے کی آوازیں اس لیے ہیں کہ لگتا ہے حسین مدینہ چھوڑ رہے ہیں رونے والوں یہ بندہ صحابی تھا روتا ہوا نبی کے گھر کے پاس آیا ایک دیوار کے پاس کھڑا ہو کر رو رہا تھا کہ ایک مرتبہ ۲۲ سالہ جوان وہاں آیا اور اس کی طرف دیکھ کر کہا تجھے کس نے اجازت دی ہے کہ ہمارے گھر کے اتنا قریب آجاؤ تجھے پتا نہیں میرے گھر میری پھوپھی رو رہی ہے رونے والو مولا سجاد کا یہ کہنا تھا اتنے میں مولا امام حسین علیہ السلام آئے آگے بڑھ کر کہتے ہیں بیٹا سجاد اتنا دیش میں نا آ ،بابا اس کو کس نے کہا ہمارے گھر کے اتنا قریب آئے بابا میری پھوپھیاں رو رہی ہیں رونے والو مولا حسین نے سید سجاد کو گلے لگایا ماتھا چوما فرماتے ہیں بیٹا سجاد آج میں امام ہوں میرا حکم چلنے دو کل شام غریباں کو تو امام ہو گا پھر تو جانے اور یہ زینب جانے جب تجھ سے پوچھ رہی ہو گی سجاد بتا جل کر مر جاؤں یا باہر نکل جاؤں ، تب تو جانے اور شرابی کا دربار ، بے غیرتوں کا مجمع ہو گا ملعون کہہ رہا ہو گا ان میں زینب کون ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع: مندرجہ مطالب، حسب ذیل کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں:
1۔ابن اعثم؛ مقتل الحسین(ع) ، ص۱۸ و سید بن طاوس؛ اللهوف، تهران، جهان، ۱۳۴۸ش، ص۱۷.
2۔الخوارزمی ، ص۱۸۳.الدینوری، ص۲۲۷؛ الخوارزمی، ص۱۸۳ و ابن شهرآشوب؛ ص۸۸
3۔شیخ مفید؛ الارشاد، ج۲، ص۳۳.
4۔الدینوری، ص۲۲۸؛ شیخ مفید، ص۳۲ و عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۲۳.
5۔ابومخنف، ص۵؛ شیخ مفید، ص۳۳
6۔مقتل خوارزمي، ج 1، ص 188
7۔الطبری، ص۳۴۱
8۔البلاذری، ص160
9۔ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص228
10۔وقعة الطف ص 85 و 86
Add new comment