خلاصہ: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) قرآنی آیات کی روشنی میں۔
رسول اسلام حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)۲۷رجب، ہجرت سے ۱۳،سال قبل مبعوث ہوئے۔ آپکا شمار دنیا کی محبوب ترین شخصیات میں ہوا کرتا تھا لوگ آپ سےاتنی محبت کرتے تھے کہ آپ جب وضو کیا کرتے تھے تو لوگ وضو کے پانی کو بطور تبرک لینےکے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے تھے۔
قرآن مجید جب پیغمبر اسلام حضرت محمدمصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی عظمت کو بیان کرنا چاہا تو آپ کی عظمت کو اسطرح بیان کیا کہ آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز تھے: «وَ إِنَّک لَعَلی خُلُقٍ عَظِیم »’’اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں‘‘ .[۱]اور حقیقت بھی یہی ہیکہ آپ اخلاق کا ایک مجسمہ تھے اور لوگوں میں آپکی محبوبیت کا راز بھی آپکے اخلاق کی بلندی ہی تھے۔
اسی طرح آپ اپنی امت کے لئے بہت زیادہ دلسوز اور خیر خواہ بھی تھے،خداوندعالم قرآن مجید میں آپکی توصیف میں کہ آپ بے انتہا عشق اور محبت کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کیا کرتے تھے ،فرما رہا ہے: «لَقَد جاءَكُم رَسولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَريصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ» ’’یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے‘‘۔[۲]
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اپنی امت سے اس قدر محبت کیا کرتےتھے کے اس راہ میں اپنی جان کی بھی فکر نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ خداوندعالم نے اپنے حبیب سے مخاطب ہوکر فرمایا: «فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا» ’’تو کیا آپ شدّت افسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیں گے اگر یہ لوگ اس بات پرایمان نہ لائے‘‘‘۔[۳]
رسول اکرم حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان وحدت اور برادری قائم کرنے کےدر پے رہتے تھے اور لوگوں کو ہمیشہ تفرقہ سےدور رکھتے تھے اور خداوند عالم نے بھی اس کی تأکید کی اور ارشاد فرمایا: «إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَ کانُوا شِیَعاً لَسْتَ مِنْهُمْ فِی شَیْءٍ إِنَّما أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِما کانُوا یَفْعَلُونَ» ’’جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ان سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے -ان کا معاملہ خدا کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کے اعمال کے بارے میں باخبر کرے گا‘‘۔[۴]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[۱]۔ سورہ قلم آیت:۴۔
[۲]۔ سورہ توبه آیت: ۱۲۸۔
[۳]۔ سورہ کهف آیت: ۶۔
[۴]۔ سورہ انعام آیت:۱۵۹۔
Add new comment