خلاصہ: بعثت سے پہلے کی زندگی میں رسول اکرمؐ کی عصمت پر متعصب لوگوں کے اعتراضات کا رد پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تیسری آیت ہے جس پر انہوں نے استدلال کیا ہے، ہم اس آیت اور ان کے استدلال کو ذکر کرتے ہوئے ان کی دلیل کا رد پیش کرتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعثت سے پہلے کی زندگی میں رسول اکرمؐ کی عصمت پر متعصب لوگوں کے اعتراضات کا رد پیش کیا جارہا ہے۔ یہ تیسری آیت ہے جس پر انہوں نے استدلال کیا ہے، ہم اس آیت اور ان کے استدلال کو ذکر کرتے ہوئے ان کی دلیل کا رد پیش کرتے ہیں:
سوره شوری، آیت ۵۲
"وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ"۔
" اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی کی ہے آپ کونہیں معلوم تھا کہ کتاب کیا ہے اورایمان کن چیزوں کا نام ہے لیکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا ہے جس کے ذریعہ اپنے بندوں میں جسے چاہتے ہیں اسے ہدایت دے دیتے ہیں اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کررہے ہیں"۔
عصمت کے مخالفین نے جملہ "مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ " کو اس بات پر دلیل سمجھا ہے کہ وحی سے پہلے پیغمبرؐ کا ایمان نہیں تھا اور وحی کی روشنی میں ایمان لائے اور جس شخص کا ایمان نہ ہو، عصمت کے لحاظ سے اس کی حالت واضح ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو پہلے دعوے ایجاد کرتے ہیں اور اس کے بعد دلیل ڈھونڈھتے ہیں ورنہ آیت کے مفہوم میں ذرا سی توجہ کرنے سے اور اس جیسی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے، آیت کے مقصد کو سمجھا جاسکتا ہے اور اشرفِ کائنات سے جنگ و جدال کرنے سے دستبردار ہوا جاسکتا ہے۔ اب ہم پہلے چند نکات کی وضاحت کرتے ہیں:
پہلا نکتہ: "روح" سے مراد جو پیغمبرؐ پر وحی ہوئی ہے، وہی قرآن کریم ہے اور خدا نے قرآن کو اس لئے روح کے لفظ سے ذکر کیا ہے کہ قرآن انسان کی آخرت کی حیات کا باعث ہے جیسا کہ روح اِس دنیا میں دنیاوی زندگی کا سبب ہے اور اِس آیت اور اس سے پہلے والی آیت میں موجودہ قرائن اس معنی کی بالکل تصدیق کرتے ہیں، کیونکہ سورہ شوری میں اہم ترین بحث اسی ”وحی الہی” کی بحث ہے جو ایک معنوی فیض کی صورت میں انسان کے آغازِ خلقت سے پیغمبر خاتم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے تک جاری رہی ہے۔
دوسرا نکتہ: جملہ ”ما کنت” یا ”ماکان” عربی زبان میں اکثر اوقات وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں بولنے والا، کسی چیز سے امکان اور توانائی یا شان اور شائستہ ہونے کی نفی کرنا چاہے اور قرآن کریم بھی اس طرح کے جملات کو انہیں مقامات میں استعمال کرتا ہے، اس کے ہم چند نمونے ذکر کرتے ہیں: "و ما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ" [۱] ممکن نہیں ہے کہ کوئی نفس مرجائے مگر اللہ کے اذن سے۔ ”ما کان لنبی ان یَغُلّ”[۲] کسی نبی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے۔ "ما کنت قاطعه امراً حتی تشهدون"[۳] میرے لئے شائستہ نہیں ہے کہ تمہاری رائے کے بغیر(ایسے عظیم کام کے لئے) فیصلہ کروں ۔
لہذا جملہ "مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ" کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم آپؐ پر وحی نہ کرتے تو اے پیغمبرؐ آپ کے لئے کتاب سے آگاہ ہونا اور ایمان تک رسائی ناممکن تھی۔
تیسرا نکتہ: آیت کا ظاہر یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ قرآن کی وحی سے پہلے، کتاب اور ایمان کے بارے میں آگاہ نہیں تھے اور اس کے نزول کے بعد آگاہ ہوگئے، اب یہ دیکھنا ہے کہ کتاب و ایمان کے بارے میں وہ کس قسم کی آگاہی ہے جو صرف نزول وحی کی صورت میں پائی جاتی ہے اور پیغمبرؐ اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ وحی کی مدد کے بغیر اس آگاہی کو حاصل کرپائے اور اس سے آگاہی صرف اور صرف نزول وحی کی صورت میں ممکن ہے۔
یہاں دو احتمال پائے جاتے ہیں:
۱۔ خود کتاب کے نزول اور اللہ پر ایمان کے بارے میں آگاہی۔
۲۔ قرآن کریم کے مطالب (عقائد، معارف، قصص اور داستانوں، احکام و وظائف) سے آگاہی اور اس کے وسیع مطالب پر ایمان۔
پہلا احتمال ایسی چیز نہیں ہے جس سے آگاہی پیغمبرؐ پر وحی کے نزول پر منحصر ہو، کیونکہ اہل کتاب آپ کی نبوت اور رسالت سے آگاہ تھے اور خود پیغمبرؐ نے اپنی نبوت اور رسالت کی خبر اپنے بزرگوں سے سنی ہوئی تھی اور خدا کی وحدانیت ایسی چیز نہیں ہے جس کا عقل حکم نہ دے اور پیغمبرؐ کے زمانے کےحنیف بغیر اس کے کہ ان پر وحی نازل ہو، سب موحد تھے، لہذا مراد دوسری صورت ہے کہ کوئی شخص وحی کی مدد کے بغیر ایسے اصول، معارف، احکام و وظائف حتی انبیا کی صحیح داستانوں سے مطلع نہیں ہوسکتا اور ان پر ایمان نہیں لاسکتا۔ یقیناً پیغمبر اکرمؐ وحی کے نزول سے پہلے معارف الہیہ اور تشریعی سنتوں سے آگاہ نہ تھے اور آپؐ وحی کی روشنی میں ان سے آگاہ ہوئے اور ان پر ایمان لائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
عصمت پیامبر ( صلی الله علیه و آله ) پیش از بعثت، آیت اللہ جعفر سبحانی
[۱] آل عمران، آیت ۱۴۵.
[۲] آل عمران، آیت 161.
[۳] النمل، آیت 32۔
Add new comment