ایمان ابوطالب، علماء اہل سنت کی نگاہ میں (۲)

Sun, 04/16/2017 - 11:16

بے شک حضرت ابوطالب ایمان کے بلند درجہ پر فائز رہے ہیں اور یہ بات خود اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے مقالہ ھذا میں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابوطالب ابتدا سے رسول خدا کے حامی و مددگار اور ان کے ہم عقیدہ رہے ہیں۔

ایمان ابوطالب، علماء اہل سنت کی نگاہ میں (۲)

گزشتہ سے پیوستہ دوسری اور آخری قسط۔۔۔۔۔۔

ج:جناب ابوطالب کی شباہت کی بناء پر رسول خدا کا عقیل سے محبت کرنا:

محمد بن سعد اور دوسرے اھل سنت کے بزرگ علماء، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جناب ابوطالب سے محبت کے بارہ میں اس طرح لکھتے ہیں:" عن ابی اسحاق أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلى اللَّهُ عليه وسلم قال لِعُقَيْلِ بن أبي طَالِبٍ: يا أَبَا يَزِيدَ اني احبك حُبَّيْنِ لِقَرَابَتِكَ مِنِّي وَحُبٌّ لِمَا كنت أَعْلَمُ من حُبِّ عَمِّي إِيَّاك"َ پیغمبر اسلام نے جناب عقیل سے فرمایا: اے عقیل میں تم سے دو وجہ سے محبت کرتا ہوں،پہلے تو یہ کہ تم میرے رشتہ دار ہو اس لئے تم کو چاہتا ہوں، دوسرے یہ کہ تم سے چچا ابوطالب محبت کرتے تھے اس لئے میں محبت کرتا ہوں۔[1]
رسول خدا کے اس جملہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ابوطالب کی رسول خدا کے نزدیک کتنی منزلت تھی کہ عقیل سے ان کی محبت اور لگاو کی بناء پر رسول خدا عقیل سے محبت کرتے تھے پس اگر ابوطالب کافر یا مشرک ہوتے تو رسول خدا کبھی بھی ان سے اتنی محبت کا اظہار نہیں کرتے پھر جن سے وہ محبت کرتے اس سے محبت، اس سے محبت کا اظہار کرنا تو دور کی بات تھی۔

د:ابوطالب کی وفات پر اس سال کو عام الحزن سے موسوم کرنا:
رسول خدا جناب ابو طالب سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال کو عام الحزن یعی غم و اندوہ کے نام سے موسوم فرمایا:چنانكه حلبى اس طرح لکھتا ہے:"مات أبو طالب وخديجة عليهما السلام في عام واحد وهو عام الهجرة، فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحزن".جناب ابوطالب اور خدیجہ دونوں کا ایک ہی سال میں انتقال ہوا در حالیکہ وہ ہجرت کا سال تھا مگر پیغمبر اسلام نے ان دوںوں سے فرقت کی بناء پر اس سال کو عام الحزن کے نام سے موسوم کردیا:[2]
هـ: جناب ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کا اذیت کرنا
کیسے ممکن ہے رسول خدا (صلى الله عليه و اله و سلم) ایک کافر اور مشرک سے اتنی محبت کریں اور کیسے مشرک تھے جناب ابوطالب کہ جب تک وہ زندہ رہے کسی کافر میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی نقصان پہنچاسکے۔"ما نالت مني قريش شيئا أكرهه حتى مات أبو طالب" جب تک ابوطالب زندہ تھے کسی قریش کے کسی فرد میں اتنی مجال نہیں تھی کہ مجھے نقصان پہنچاسکے۔[3]
ابن اثير الكامل فى التاريخ میں اس طرح رقم طراز ہیں:"فعظمت المصيبة على رسول الله بهلاكهما فقال رسول الله ( ما نالت قريش مني شيئا أكرهه حتى مات أبو طالب. وذلك أن قريشا وصلوا من أذاه بعد موت".جناب ابوطالب اور خدیجہ کی وفات، پیغمبر اسلام کےلئے بہت سخت مرحلہ تھا اسی لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تک ابوطالب زندہ تھے  قریش کے کسی فرد میں اتنی مجال نہیں تھی کہ مجھے نقصان پہنچاسکے، قریش نے ابوطالب کی وفات کے بعد سے مجھ پر ظلم کرنا شروع کردیا ۔[4]

مذکورہ جتنی بھی روایات ہیں وہ اہل سنت کی کتابوں سے نقل کی گئی ہے ، جس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جناب ابوطالب کی قدر و منزلت رسول اسلام کی نگاہ میں بہت زیادہ تھی اور یہ بات روز روشن کی طرح ہے جس طرح رسول اسلام وما ینطق عن الھوی ان ھو وحی یوحی کی منزلت پر فائز ہیں اسی طرح سے و ماتشائون الا ان یشاء اللہ کی منزل پر فائز ہیں یعنی جس طرح پیغمبر خود کی مرضی سے کوئی کلام نہیں کرتے اسی طرح سے اپنی مرضی سے کچھ چاہتے بھی نہیں ہیں اگر کوئی کلام کرتے ہیں یا کسی سے محبت و الفت کا اظہار کرتے ہیں ان تمام میں خدا کی رضایت پیغمبر اسلام کے شامل حال  رہتی ہے لہذا جو بھی محسن اسلام کے لئے کہا ہے یا محبت کا اظہار کیا ہے اسمیں بھی خدا کی مرضی شامل رہی ہے پس کیسے ممکن ہے کہ خدا وند عالم معاذ اللہ ایک کافر سے کھلم کھلا اظہار محبت سے راضی ہے چنانچہ پیغمبر اسلا م کا فعل اور خدا کا سکوت ہمیں بتا رہا ہے کہ ابوطالب کافر یا مشرک نہیں تھے بلکہ حقیقت میں محسن اسلام اور پاسبان توحید و رسالت تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] الطبقات الكبرى، ج 4، ص 43، و المعجم الكبير، ج 17، ص 191 و المستدرك على الصحيحين، ج 3، ص 667، و الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج 3، ص 1078، اسکے علاوہ اور بھی منابع ہیں جسے یہاں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
[2] البصائر والذخائر، ج 4، ص 179، و المحكم والمحيط الأعظم، ج 3، ص 225، و نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 1، ص 157، و التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة، ج 1، ص 12، و السيرة الحلبية في سيرة الأمين المأمون، ج 3، ص 498،
[3] السيرة النبوية، ج 2، ص 264، و تاريخ الطبري، ج 1، ص 554، و السيرة النبوية، ج 2، ص 123، و فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 7، ص 194،۔
[4] الكامل في التاريخ، ج 1، ص 606۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 61