خلاصہ: اس مقالہ میں نصرت کے چند طریقہ ذکر کیے گئے ہیں؛ تقوا، جاہلوں کی راہنمائی، دینی علوم اور معارف کو حاصل کرنا، امر بہ معروف اور نہی عن المنکر۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۔ تقوا کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
(الف) اللہ کی جانب سے جو امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی عظیم ترین اور اہم ترین ذمہ داری، لوگوں کی ہدایت کرنا اور کامیابی اور اچھائی کی طرف راہنمائی کرنا ہے۔ لہذا جو شخص، خدا کے بندوں میں سے ایک بھی آدمی کی ہدایت کردے یا اپنی اصلاح کرے اور تقوا اختیار کرے،تو جتنا اس نے دوسروں کی ہدایت یا اپنی اصلاح میں قدم اٹھایا ہے، اتنی امامؑ کی نصرت کی ہے۔
(ب) جب بھی کوئی مومن تقوا کی صفت سے مزین ہوگیا اور کمال کی علامات اس میں ظاہر ہوگئیں تو امامؑ اس پر فخر کرتے ہیں اور وہ درحقیقت امامؑ کی زینت کا باعث بنا ہے۔
(ج) جب کوئی مومن شخص تقوا کی بنیاد پر کمال کے درجہ پر فائز ہوگیا تو خداوند متعال کبھی کبھار بعض کرامتیں اس میں ظاہر کرتا ہے اور کرامتوں کا ظاہر ہونا باعث بنتا ہے کہ لوگوں کا امام زمانہؑ پر اعتقاد اور معرفت بڑھے اور مضبوط ہوجائے کہ یہ جو شیعہ اور آپؑ کے تربیت یافتہ ہیں، ان کے کمالات یہ ہیں تو خود حضرتؑ کیسے ہوں گے۔
(د) امام زمانہ (عج) کی نصرت کرنے کا بہترین طریقہ، آنحضرتؑ کے ظہور کی تعجیل کے لئے دعا کرنا ہے اور واضح ہے کہ تقوا، دعا کی استجابت کی شرائط میں سے ہے۔ لہذا آنحضرتؑ کے ظہور کے لئے دعا کرنا، حقیقی طور پر تب آپؑ کی نصرت شمار ہوگی جب آدمی حقیقی طور پر صفت تقوا کا حامل ہو۔
۲۔ جاہلوں کو راہنمائی کرنے کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
خدا کے بندوں کی ہدایت، امامؑ کی امامت کے شئون میں سے ایک شان ہے۔ لہذا جو شخص اللہ تعالی کی توفیق کے ساتھ کچھ لوگوں کی ہدایت کا وسیلہ بن سکے تو درحقیقت اس نے دین کی ترویج اور تبلیغ کے کام میں آنحضرتؑ کی نصرت کی ہے اور اس عمل کے ذریعہ نصرت الٰہی کی ہے۔ بنابریں جس شخص کے لئے جس صورت میں بھی ممکن ہے اسے چاہیے گمراہ اور جاہل لوگوں کی راہنمائی کی کوشش کرے کیونکہ یہ طریقہ، بہترین عبادتوں میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا باعث ہے۔ اور اس آیت کریمہ "و من أحیاها فکأنّما احیی الناس جمیعاً"[1] (اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی) میں "نفس" کو زندہ کرنے سے مراد یہی ہدایت ہے اور یہ کام زیادہ تر، علما٫ کی ذمہ داری ہے۔
۳۔ دینی علوم اور معارف کو حاصل کرنے کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
مومن شخص نےدینی علوم اور معارف حاصل کرنے کے ذریعہ درحقیقت حضرت امام عصرؑ کی نصرت کی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہخود آدمی منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جس کی ہدایت، امامؑ کے شئون میں سے ہے، لہذا جس طرح دوسروں کی ہدایت کرنے کے ذریعہ، امامؑ کی نصرت ہوتی ہے، اسی طرح اپنی ہدایت کے اسباب فراہم کرنے سے آنحضرتؑ کی نصرت شمار ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دینی علوم کو حاصل کرنا، لوگوں کی راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ جب علم کا نور پیدا ہوگیا تو دوسرے لوگ بھی اس کی روشنی سے فیضیاب ہوں گے اور اس طریقہ سے حضرت امام زمانہؑ کی مدد ہوگی۔
۴۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
اگر امر بہ معروف اور نہی عن المنکر مقررہ شرائط کے ساتھ کیا جائے تو اس کے ظاہری اور باطنی نتائج رونما ہوں گے۔ اس سلسلہ میں ان دو فرائض کے ظاہری نتائج یہ ہیں کہ امر بہ معروف کرنے سے نیک اعمال کو چھوڑدینے والے لوگ، ان نیک اعمال کو بجالائیں گے اور نیز نہی عن المنکر کرنے سے گنہگار لوگ یا تو گناہوں کو بالکل چھوڑ دیں گے یا کچھ کمی کردیں گے۔ اور ان ظاہری نتائج میں امام زمانہؑ کی ایک طرح کی نصرت پائی جاتی ہےکیونکہ یہ ان امور میں سے ہیں جو امامؑ سے مخصوص ہیں۔ لہذا جو آدمی ان دو کاموں کو بجالانے پر کامیاب ہوجائے اس نے ضرور امامؑ کی نصرت کی ہے۔
ان دو فرائض کے باطنی نتائج یہ ہیں کہ اللہ کی برکتوں اور فیوضات کے نزول کا باعث بنتے ہیں اور آفات و مشکلات کے خاتمہ کا سبب بنتے ہیں، اور ان باطنی نتائج میں امامؑ کی ایک طرح کی نصرت پائی جاتی ہے، کیونکہ خدا کی برکتیں اور فیوضات امامؑ کے مبارک وجود کے طفیل لوگوں تک پہنچتی ہیں، لہذا جو شخص رکاوٹوں کے ہٹ جانے کا باعث بنے اور برکات اور فیوضات کے ظاہر ہونے کا سبب بنے تو اس نے آنحضرتؑ کے وجود کے نتائج کے ظاہر ہونے میں آنحضرتؑ کی نصرت کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
’’شیوه های یاری قائم آل محمد، تصنیف: ، محمّدباقر فقیه ایمانی‘‘ سے ماخوذہ.
[1] سورہ مائده، آیت 32.
Add new comment