خلاصہ: اس مقالہ میں نصرت کے چند طریقہ ذکر کیے گئے ہیں؛ مرابطہ، تقیہ کرنا،تعجیل ظہور کے لئے دعا، ہر ایک کی وضاحت بیان ہوئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵۔ ’’مرابطہ‘‘ کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
آیت اللہ فقیہ ایمانی ’’مرابطہ‘‘ کی یوں وضاحت کرتے ہیں: مرابطہ یعنی سرحدوں پر اسلام کے دشمنوں کے سامنے تیار اور مسلح رہنا ۔ مرحوم کلینی نے کتاب کافی میں آیت کریمہ "إصبروا و صابروا و رابطوا"[1] کے ذیل میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے: "واجبات کی دشواری پر صبر کرو اور ایک دوسرے کو مشکلات میں استحکام کا حکم دو اور ائمہؑ کے لئے مرابطہ کرو"۔[2]
مرابطہ کی دو قسمیں ہیں:
(الف) مسلمانوں کی کچھ تعداد اسلامی ملک کے تحفظ کے لئے مسلسل تیار رہے، اس ذریعہ سے امام زمانہؑ کی نصرت بالکل واضح ہے کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کا تحفظ ان امور میں سے ہے جس کا تعلق امامؑ سے ہے اور امامت کی شئون میں سے ہے۔ لہذا جو شخص اس راستہ میں جد و جہد کرے، اس نے آنحضرتؑ کی ذمہ داری کی مشقت کو کچھ کم کردیا ہے، آپؑ کی عزت و شرف کا باعث بنا ہے اور ایک طرح سے اپنے امامؑ کی مدد کی ہے۔
(ب) مومن آدمی مسلسل اور ہر حال میں امام زمانہؑ کے ظہور کا منتظر رہے اور اپنے آپ کو آنحضرتؑ کے عظیم اور عالمی قیام میں حصہ لینے کے لئے اگرچہ ایک تیر تیار کرنے کے ذریعہ، آمادہ کرے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس بارے میں فرمایا: "تم (مسلمانوں) میں سے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ قائم کے قیام کے لئے تیاری کرے، اگرچہ ایک تیر کے ذریعہ"۔[3]
۶۔ تقیہ کرنے کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
تقیہ یعنی دشمنوں سے ایسا رویہ اختیار کیا جائے کہ مومن شخص اور دیگر مومنین کی جان، مال اور عزت محفوظ رہے۔ مرحوم آیت اللہ فقیہ ایمانی اس قسم کی مدد کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں منجملہ یہ ہے کہ تقیہ کے ذریعہ کیسے امام زمانہؑ کی نصرت کی جاسکتی ہے؟ جواب میں تحریر فرماتے ہیں: جیسے بیان ہوا کہ "تقیہ" وہاں ہوتا ہے جہاں مومن آدمی کوئی کام کرنے یا چھوڑنے کی وجہ سے (جانی، مالی، عزت وغیرہ کے) خطرے کی زد میں آجائے اور نیز وہ خطرہ آنحضرتؑ یا آنحضرتؑ کے شیعوں اور حبداروں کو لاحق ہو، لہذا اگر مومن ایسے حالات میں تقیہ اختیار کرے تو اس نے درحقیقت خطرے اور نقصان کی روک تھام میں اپنے امامؑ کی نصرت کی ہے۔ مثلاً مومن کی بات یاکردار (خدا نخواستہ) باعث بنے کے دشمن، ائمہ معصومین علیہم السلام کا مزاق اٹھائیں یا جاہل بے حرمتی کریں۔
۷۔ تعجیل ظہور کے لئے دعا کرنے کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
احادیث اور روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اللہ کے حقوق اور تمام انبیا٫، اوصیا٫ اور اولیا٫ کے حقوق کو برآمد کرنا حضرت بقیۃ اللہ علیہ السلام کے ظہور پرنور پر مکمل طور پر منحصر اور موقوف ہے۔ نیز بہت ساری احادیث سے اور دعاؤں اور زیارتوں کے فقروں سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ آنحضرتؑ کے ظہور کا اصل واقع ہونا اللہ کا یقینی وعدہ ہے لیکن اس عظیم واقعہ کے رونما ہونے کا وقت، " بدا " حاصل ہونے والے امور میں سے ہے جس میں تعجیل اور تاخیر کا امکان ہے۔
بعض روایات سے ملتا ہے کہ مومنین کی دعا اگر مکمل شرائط کے ساتھ ہو تو دعا کا ظہور کی تعجیل میں بہت اثر و رسوخ ہوگا۔ اگر کسی کا کام کسی واقعہ کے رونما ہونے میں اثرانداز ہو تو اس نے اس واقعہ میں ایک طرح کی مدد کی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعجیل ظہور کے لئے مومن شخص کی دعا، درحقیقت امام عصرؑ کی نصرت اور مدد ہے۔
اس کے بعد مرحوم آیت اللہ فقیہ ایمانی لکھتے ہیں کہ جیسے دعا کرنا ظہور کی تعجیل کا باعث ہے، دعا کو ترک کردینا بھی ظہور کی تاخیر کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے قرآنی اور حدیثی دلائل کے ذریعہ اس اہم نکتہ پر روشنی ڈالی ہے اور نیز کچھ روایات کو نقل کیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خود ائمہ معصومین علیہم السلام بعض اوقات اپنے شیعوں سے فرماتے تھے کہ وہ حضراتؑ کی حاجات اور اہم مسائل کے لئے دعا کریں، اس سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ مومن کی دعا ائمہ معصومین علیہم السلام کی حاجات کے پورا ہونے اور پریشانیوں کے دور کرنے کے لئے فائدہ مند ہے اور یہ بات اس مسئلہ کے منافی نہیں ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام حالانکہ خود اللہ کے تمام فیوضات کا دوسروں کے لئے وسیلہ ہیں اور ہر لحاظ سے دوسروں سے بے نیاز ہیں، اس کے باوجود دوسروں سے دعا کرواتے ہیں،کیونکہ جیسے خداوند متعال غنی بالذات اور بے نیاز ہونے کے باوجود لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اور نیز ان سے نصرت طلب کی ہے اور حتی ان سے قرض مانگا ہے۔
ان امور کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو عقیدہ، زبان اور محبت کے لحاظ سے آزمائیں اور ان اعمال کو بجالانے کے ذریعہ اللہ کی رحمت حاصل کرنے کی لیاقت اور صلاحیت حاصل کریں۔۔۔۔۔۔۔جاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
’’شیوه های یاری قائم آل محمد، تصنیف: ، محمّدباقر فقیه ایمانی‘‘ سے ماخوذہ.
[1] سورہ آل عمران، آیت 200(اے ایمان والو صبر کرو.صبر کی تعلیم دو.جہاد کے لئے تیاری کرو)
[2] کافی، ج 2، ص 81، ح 2.
[3] غیبت نعمانی، ص 320.
Add new comment