خلاصہ: اس مقالہ میں نصرت امام زمانہ (عج) کے مزید دو طریقے ذکر کیے گئے ہیں؛ نصرت کی تمنا ، ظہور کا انتظار
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۔ نصرت کی تمنا کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
امام زمانہ ؑ کی نصرت کی تمنا اور آرزو جب عزم اور حقیقی ارادہ اور دلی شوق سے اور صدق و یقین کے ساتھ ہو، درحقیقت تب امام عصرؑ کی مدد ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
(الف) آدمی کو بہت جذبہ ہو اور پختہ ارادہ ہو کہ جب آنحضرتؑ ظہور فرمائیں، ان کی مدد کرے گا۔
(ب) اسلام کی نصرت اور مدد کی سوچ (واقعی طور پر) اس کے دل میں ہو اور اسلام میں تخریب کاریوں اور تباہ کاریوں کی وجہ سے پریشان ہو۔
مومن آدمی کو امام زمانہؑ کی نصرت اور مدد کے لئے بہت جوش و جذبہ ہوتا ہے اور چونکہ اس کے ظاہری اسباب فراہم نہیں ہیں تو ہمیشہ اس کا سبب فراہم ہونے کی آرزو کرتا ہے اور اس کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ منتظر مومن، مسلسل غم اور دکھ میں رہتا ہے یہاں تک کہ ندبہ کی حالت اختیار کرلیتا ہے، تب خدا اسے امام زمانہؑ کی نصرت کا مکمل ثواب عطا کرتا ہے اور اسے قائم آل محمدؑ کے مددگاروں میں شمار کرتا ہے۔
مومن شخص کو اگر اسلام کی نصرت اور مدد کی تمنا ہو اور واقعی طور پر اسلام کے المیہ کے لئے غمزدہ ہو لیکن چونکہ اس میں اسلام کی مدد کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اس تمنا کی وجہ سے حقیقی مددگاروں میں شمار ہوتا ہے، اور کیونکہ اسلام کی نصرت، مدد اور تحفظ، امام زمانہؑ کے خاص شئون میں سے ہے تو جو شخص، جس وجہ سے اور جس وسیلہ کے ذریعہ اسلام کی نصرت کے لئے جد و جہد کرے، اس نے درحقیقت امام عصرؑ کی مدد کی ہے۔
مصنف مرحوم آیت اللہ فقیہ ایمانی اس موضوع میں مومن کے دل کو خوش کرنا، مومنین کی مشکلات کو حل کرنا اور دینی بھائیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کے سلسلے میں کچھ روایات ذکر کرتے ہوئے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ ان کی مدد کرنا، امام زمانہؑ کی مدد کرنا ہے۔
۹۔ ظہور کا انتظار کے ذریعہ امام عصرؑ کی نصرت:
ظہور کی انتظار کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ منتظر شخص، ان مجاہدین اور شہدا کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے امامؑ کے حضور میں جہاد اور شہادت کے مقام پر فائز ہوئے ہوں۔
آیت اللہ فقیہ ایمانی اس سلسلہ میں ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جو بیان کرتی ہیں کہ ظہور کا انتظار کرنا، اللہ کی راہ میں نصرت اور شہادت کی فضیلت کا حامل ہے۔ منجملہ نور الابصار میں ابی حمزہ سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نےحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا: " میں آپؑ پر قربان ہوجاؤں، میں بوڑھا اور ناتوان ہوگیا ہوں اور میری موت قریب ہوچکی ہے اور مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ کے ظہور کے واقع ہونے سے پہلے وفات پاجاؤں"۔
امامؑ نے فرمایا: اے اباحمزہ! جس شخص کا ایمان ہو اور زبان سے ہماری تصدیق کرے اور ہمارے فرج کا منتظر ہو، اس شخص کی طرح ہے جو حضرت قائم ؑ کے علم کے نیچے شہید ہوا ہو بلکہ اس کا اجر اس شخص جتنا ہے جو پیغمبر اکرمؐ کے رکاب میں شہید ہوا ہے۔[1] اور دوسری روایت میں آنحضرتؑ نے فرمایا: " جو شخص انتظار فرج کی حالت میں وفات پاجائے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بدر و اُحد کے بہت سارے شہیدوں سے افضل ہے۔[2]
اس روایت اور اس جیسی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال، انتظار کے ذریعہ حضرت قائم ؑ کے رکاب میں جہاد کرنے والوں اور شہید ہونے والوں کا اجر عطا فرمائے گا اور فرج کے منتظرین کو آنحضرتؑ کے فوجیوں میں محشور کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
’’شیوه های یاری قائم آل محمد، تصنیف: محمّدباقر فقیه ایمانی‘‘ سے ماخوذہ.
[1]تفسیر برهان، ج 4، ص 293، ح 9.
[2] کافی، ج 1، ص 334، ذیل ح 2.
Add new comment