خلاصہ:امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے انتظار کرنے کےآداب احادیث کی روشنی میں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دین مبین اسلام نے انسان کی زندگی کے ہر موڑ کے لئے آداب اور اخلاق معین کئے ہیں۔ جو بھی عقلمند انسان ہوگا وہ ان آداب یا اخلاق کی رعایت ضرور کریگا کیونکہ ان آداب کو اللہ کےبھیجے ہوئےنمائندوں نے بتایا ہے،انہیں آداب میں سےجو اللہ کے نمائندوں نے بتائے ہیں، امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کی غیبت کے زمانے میں انکا انتظار کرنے والوں کے آداب ہیں ، ہمیں انتطار کس طرح کرنا چاہئے اسکے بھی آداب معصومین(علیہم السلام) نے ہمارے لئے معین کئے ہیں ، ان آداب کو جاننا ہمارے لئے بہت ضروری ہے تا کہ ہم نجات حاصل کرسکیں،انھیں آداب میں سے بعض آداب معصومین(علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں جو ایک انتظار کرنے والے شخص کے لئے ضروری ہےبیان کئے جارہے ہیں:
۱۔ زھد کو اپنانا:
امام صادق(علیہ السلام) ارشاد فرمارہےہیں:«جوکوئی چاہتا ہیکہ امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی خدمت کرنے والوں میں اپنا نام درج کروائے اسے چاہیے کے وہ انتظار کرے اور اچھے اخلاق کو اپنائے اور اگر وہ شخص اسی انتظار کی حالت میں مرجائے تو ایسا ہے جیسے اس نے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کو درک کیاہو»۔[۱]
امام صادق (علیہ السلام) دوسری حدیث میں ارشاد فرمارہے ہیں:«غیبت کے زمانے میں دین پر باقی رہنا ایسا ہی ہے جیسے خاردار کانٹوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑنا، اسکے بعد امام(علیہ السلام) تھوڑی دیر خاموش ہوئے اور پھر فرمایا: اس زمانے میں لوگوں کو چایئے کہ وہ اپنے دین کی حفاظت کریں»۔[۲]
۲۔ شک کرنے سے پرہیز کرنا اور ائمہ معصومین(علیہم السلام) کی پیروی کرنا:
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «ہرگز قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے حق میں شک نہ کرو، انکے بارے میں ہر طریقہ کہ شک اور تردید سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو، میں تم لوگوں کو آگاہ کر رہاہوں، انکے بارے میں شک کرنے سے پرہیز کرو۔»۔[۳]
دوسری حدیث میں امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «اگر تم ایسے زمانے میں رہو کہ جس زمانے میں آل محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں سے کوئی امام موجود نہ ہو، تو زمانے میں صبح و شام فرج کا انتطار کرو»۔[4]
۳۔ دعا کرنا:
امام صادق(علیہ السلام) نے ابن سنان سے خطاب کرکے فرمایا:«بہت جلدی ایک شبھہ میں گرفتار ہو جاؤگے اور بغیر امام کے رہ جاؤگے، اس شبھہ سے نجات نہیں ملیگی مگر دعائے غریق کے پڑھنے سے۔ابن سنان نے عرض کیا دعائے غریق کونسی دعا ہے؟ آپنے فر مایا:« يَا اللَّهُ يَا رَحْمَانُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»۔[۵]
۴۔ علما کی کتابوں کی طرف مراجعہ:
امام صادق (علیہ السلام) مفضل ابن عمر سے فرماتے ہیں:«اپنے علم کو لوگوں کے لئے لکھوں اور اپنے بھائیوں کے درمیان نشر کرو اور جب تمھاری موت نزدیک آجائے تو اپنے بچوں کے لئے میراث میں چھوڑو، اس لئے کہ ایک ایساپرآشوب زمانہ آنے والا ہے جس میں سوائے کتاب کے کوئی ہمدم نہ ہوگا»۔[۶]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[۱]۔ دوانى، على، مهدى موعود ( ترجمه جلد 51 بحار الأنوار)۔
[۲]۔بحار الانوار ج۵۲، ص۱۳۵۔
[۳]۔الغيبۃ(للنعماني)، ص 1۵۰، ح ۸.
[۴]۔بحارالانوار، ج 52، ص 133.
[۵]۔مھج الدعوات و منھج العبادات،ص332۔
[۶]۔کافي، ج 1، ص 52، ص 11.
Add new comment