انتظار کے معنی اور شرائط

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مقالہ میں انتظار کے معنی اور شرائط بیان کیے ہیں۔ انتظار کی دو قسمیں ہیں، قلبی اور جسمانی، ان دونوں کی وضاحت کی ہے۔ پھر انتظار کی دو شرایط یعنی نشانیاں بیان کی ہیں۔

انتظار کے معنی اور شرائط

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مرحوم آیت اللہ فقیہ ایمانی تحریر فرماتے ہیں کہ لفظی لحاظ سے انتظار کے معنی، ناامیدی کی ضد ہے اور کسی چیز کی انتظار سے مراد یہ ہے کہ اس کے واقع ہونے پر یقین اور امید ہو۔ انتظار کی دو قسمیں ہیں: قلبی اور جسمانی۔
قلبی انتظار کے تین درجات ہیں:
(الف) یقین ہو کہ آنحضرتؑ کا ظہور حق ہے اور واقع ہوکر رہے گا اور اس خدائی وعدے میں کسی خلاف ورزی کا امکان نہیں ہے۔ لہذا اس کے واقع ہونے میں جتنی تاخیر ہوتی چلی جائے، ناامید نہ ہو اور اس کا منکر نہ ہو اور جان لے کہ اس حد تک عقیدہ رکھنا واجب ہے اور ایمان کی حقیقت اس پر منحصر ہے اور اگر درحقیقت ایسا عقیدہ نہ ہو تو کفر و ضلالت کا باعث ہے، اگرچہ اس پر ظاہری لحاظ سے اسلام کے احکام جاری ہوں کیونکہ امامت کا انکار ہے لیکن ظاہر میں توحید اور رسالت کا اقرار کرتا ہے۔
(ب) ظہور کو کسی خاص وقت میں محدود نہ سمجھے کہ اُس سے پہلے، اس کے واقع ہونے سے ناامید ہوجائے، اس حد تک معتقد ہونا بھی واجب ہے۔ اس ناامیدی سے منع کیا گیا ہے اور حرام ہے اور یہ حرمت اور حرام ہونا "وقاتون( وقت معین کرنے والوں) کی تکذیب" کی وجہ سے ہے۔
(ج) جو روایات سے ملتا ہے یہ ہے کہ ہر حال میں منتظر رہنا چاہیے اور ظہور پر امید رکھنی چاہیے اور اس حد تک معتقد ہونا، ایمان کے کمال کا تقاضا ہے، کیونکہ مومن شخص کے ایمان کے کمال کا لازمہ یہ ہے کہ ظہور کو قریب سمجھے اور مسلسل انتظار میں رہے اور ہمیشہ اپنے مسافر کے پہنچنے کا منتظر رہے۔[1]
جسمانی انتظار: اگر آدمی کے پاس زراعتی زمین ہو تو اس کو کاشتکاری کے لئے تیار کرتا ہے، اس میں بیج بوتا ہے اور اس کو پانی دیتا ہے کیونکہ زمینی اور آسمانی آفات پڑنے کا امکان ہے تو اس زراعت کا آفتوں سے بچ جانے کے لئے خداوند متعال سے دعا کرتا ہے اور اسی حالت میں فصل کی کٹائی کے وقت کی انتظار میں باقی رہتا ہے، جس طرح  دنیاوی نعمتوں میں خداوند متعال نے اسباب فراہم کیے ہیں اور ان اسباب کے ذریعہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں، اسی طرح امامؑ کے ظہور کی تعجیل کے لئے کہ جو تمام نعمتوں کے ظہور کا وسیلہ ہے، ایسے اسباب مقرر کیے ہیں جو خود لوگوں کے اختیار میں ہیں اور وہ اسباب تقوا اور اعمال صالح ہیں۔ لوگوں کے گناہ، اسرار آل محمد (ص) کو فاش کرنا اور دشمنوں کے سامنے تقیہ نہ کرنا اُن امور میں سے ہیں جو ظہور کی تاخیر کا باعث ہیں، لہذا مومن کو چاہیے کہ سب گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے آفات کو ہٹانے کی دعا کرے اور فصل کے تیار ہونے کے انتظار میں یعنی امامؑ کے ظہور کے دن کے انتظار میں باقی رہے۔ یہ حالت، مکمل جسمانی انتظار ہے اور ایمان کے کمال کا لازمہ ہے۔[2]
انتظار کے شرائط
آیت اللہ فقیہ ایمانی نے انتظار کے لئے دو نشانیاں بیان کی ہیں:
۱۔ قلبی جذبہ: کیونکہ محبوب جتنا حبیب کی نظر میں زیادہ عزیز ہو اور حبیب کی اس سے محبت جتنی زیادہ ہو، اتنا ہی محبوب کی ملاقات کے لئے جذبہ بڑھتا جائے گا اور جذبہ کی آگ جتنی زیادہ شعلہ افروز ہوگی اتنی ہی محبوب سے جدائی زیادہ تلخ ہوگی اور جدائی جتنی زیادہ طویل ہوگی، اتنا اس کا غم اور دکھ زیادہ ہوتا ہے یہاں تک کہ بکا٫ اور گریہ کا باعث، بلکہ جزع اور ندبہ کا باعث بنتا ہے۔
۲۔ انتظار کی دوسری علامت یہ ہے کہ نامحرموں سے دور اور کنارہ کش رہنا اور نیز بول چال میں کمی اور بیہودہ باتوں سے دوری اختیار کی جائے۔ لہذا جو شخص ان کیفیات کا اپنے وجود میں ظاہری اور باطنی لحاظ سے زیادہ حد تک اور زیادہ مکمل طور پر حامل ہو، اس بات کی علامت ہے کہ اس کا اپنے مولاؑ کے ظہور اور آنحضرتؑ کے نورانی جمال کی زیارت کے لئے جذبہ کا مقام اور انتظار کی حقیقت، زیادہ مکمل ہے۔ ۔[3]
بنابریں جب بھی کوئی آدمی، اپنی طاقت کے مطابق امام زمانہؑ کی نصرت اور مدد کے لئے کوشش کرے اور آنحضرتؑ کے ظہور کی انتظار کرے تو ایسا شخص آنحضرتؑ کے مددگاروں کے زمرے میں قرار پائے گا۔[4]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] شیوه های یاری قائم آل محمد، ص ۱۱۸ ، ۱۲۱۔
[2] شیوه های یاری قائم آل محمد، ص ۱۲۱، ۱۲۲۔
[3] شیوه های یاری قائم آل محمد، ص ۱۳۵۔
[3] شیوه های یاری قائم آل محمد، ص ۱۳۸۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 63