خلاصہ: اس مضمون میں امام زمانہ (عج) سے متعلق مشہور حدیث [يَمْلَاءُ الارْضَ قِسْطَاً وَ عَدْلًا كَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً] کے سلسلہ میں کئیے گئے شبہے کا جواب دیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ،امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) اور آخر الزمان سے متعلق ایک مشہور حدیث نقل ہوئی ہے کہ [لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنْ الدُّنيا الَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوّلَ اللَّهُ ذلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّهُ رَجُلًا صالِحَا مِنْ اهْلِ بَيتْى يُواطى اسْمُهُ اسْمى وَ كُنْيَتهُ كُنْيَتى يَمْلَاءُ الارْضَ قِسْطَاً وَ عَدْلًا كَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً.](۱)’’اگر دنیا کا ایک دن باقی رہ جائے تب بھی خدا وند عالم اس ایک دن کو اتنا طویل کر دے گا کہ ہمارے اہل بیت میں سے اللہ ایک صالح شخص بھیجے گا، جسکا نام اور کنیت میری جیسی ہوگی،وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح سے زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ‘‘۔
کم و بیش اسی مضمون اور الفاظ کے ساتھ اور بھی روایتیں ذکر ہوئی ہیں۔(۲)
شبھے کی وضاحت:
انتظار کی حقیقت سے نابلد افراد حدیث کے آخری جملات سے غلط مفہوم نکالتے ہیں اور یہ شبھہ پیش کرتے ہیں کہ اگر امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جس طرح زمین ظلم اور جور سے بھر چکی ہو گی تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ لازم ہے پہلے زمین ظلم و جور سے بھر جائے اور پھر امام (علیہ السلام) ظہور فرما کر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں۔!
اس کج فہمی کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے اتنا زیادہ ظلم کیا جائے تاکہ دنیا ظلم سے بھر جائے بلکہ خود بھی اس ظلم و جور کو پھیلانے میں شرکت کرے اور پھر امام(علیہ السلام) آکر عدل برپا کریں۔گویا ظلم و ستم کرنا امام (علیہ السلام) کے ظہور کے شرائط میں سے ہے اور اس شرط کو محقق کرنے میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔
شبھے کے دو جواب:
(۱)پہلا جواب۔
اس حدیث کے آخری حصے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تشبیہ کے ذریعے بات کو بیان کر رہے ہیں۔ جواب کو سمجھنے کے لیئے اس بات کو جان لینا ضروری ہے کہ جب کبھی بھی تشبیہ بیان ہوتی ہے تو اس میں تین چیزیں ضرور ہوتی ہیں وجہ شبہ (جس وجہ سے تشبیہ دی جائے)،مشبہ (جسکے لئے شباہت بیان کی جائے) اور مشبہ بہ (جسکے ذریعہ شباہت بیان کی جائے) ، مثال کے طور پر جب کہا جائے ’’علی شیر کی مانند ہے‘‘ تو اس تشبیہ میں ’وجہ شباہت‘ شجاعت ہے، ’علی‘ مشبہ ہے اور ’شیر‘ مشبہ بہ ہے ،اس تشبیہ کا مطلب ہوا ’علی کی شجاعت شیر کی شجاعت کی طرح ہے‘۔
ایک اور اہم قاعدہ بیانِ شباہت میں یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ تشبیہ کو ’مشبہ‘ کے لیئے بیان کیا جاتا ہے ۔یعنی اس مثال میں ’علی کی شجاعت‘ کے لئے تشبیہ بیان ہو رہی نہ کہ شیر کی شجاعت کے لئے، اور اس ’وجہ شباہت‘ کو ’مشبہ‘ میں تقویت کے لیئے بیان کیا جاتا ہے،یعنی شجاعت کو ’علی ‘ میں زور دے کر بیان کرنا مقصد ہے نہ کہ شیر کی شجاعت کو بیان کرنا مقصد ہو۔(۳)
یعنی [يَمْلَاءُ الارْضَ قِسْطَاً وَ عَدْلًا كَما مُلِئَتْ ظُلْماً وَ جَوْراً] ’’ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح سے زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ‘‘ اس تشبیہ میں یہ جملہ ’’ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ‘‘ مشبہ ہے اور دوسرا جملہ ’’ جس طرح سے زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ‘‘ مشبہ بہ ہے۔
( مذکورہ قواعد سے واضح ہے) یہاں زمیں کا عدل و انصاف سے بھر جانے پر زور دیا جا رہا ہے، نہ کہ زمین کا ظلم و جور سے بھر جانے کی تقویت کی جا رہی ہو۔ اور عدل و انصاف کے مفہوم کو تقویت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے تشبیہ بیان کی جا رہی ہے۔
حدیث کا مقصد یہ بیان کرنا نہیں ہے کہ ظہور سے پہلے زمیں، ظلم اور جور سے بھری ہو گی بلکہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ظہور کے بعد زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔
لھذا حدیث سے یہ مفہوم نہیں نکالتا کہ ظلم و جور کو بہت زیادہ ہونا چاہئے بلکہ حدیث کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ عدل و انصاف بہت زیادہ ہو جائے گا۔اس طرح ہمارے قلوب میں ظہور کی نسبت شوق ایجاد کیا جا رہا ہے تاکہ ہر انسان اس بات کا خواہاں رہے کہ کب وہ وقت آئے گا جب دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔
(۲)دوسرا جواب۔
یہ سوچنا غلظ ہے کہ آخر الزمان میں ہر شخص کو گناہگار ہونا چاہئے ظالم و جابر ہونا چاہئے تاکہ دنیا برایئوں سے بھر جائے اور پھر امام (علیہ السلام) ظہور فرما کر برائیوں سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں۔
یہ مخرب اور منفی انتظار ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔
بلکہ ممکن ہے کہ ایک یا دو یا چند لوگ (نہ کہ دنیا کے تمام لوگ) ہی مل کر اتنا فتنہ اور فساد پھیلائیں کہ دنیا ظلم و جور سے بھر جائے اور اکثریت مظلوموں کی ہو نہ کہ ظالموں کی اس طرح بھی دنیا ظلم سے بھر سکتی ہے اور ضروری نہیں کہ دنیا کو ظلم سے بھرنے کے لئے ہر شخص ظالم ہو (جیسا کہ شبھہ پیش کیا جاتا ہے)۔
مثال کے طور پر اگر یہ حکم دیا جائے کہ جب یہ کمرا دھوئیں سے بھر جائے تو سب باہر آجائیں،تو اب ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ فردا فردا اس کمرے میں آگ جلا کر دھویں سے بھرنے کی کوشش کرنے لگئیں بلکہ کافی ہے ایک یا دو آدمی بھی اتنی آگ جلا دیں کہ کمرا دھوئیں سے بھر جائے اور باقی سب کمرے سےباہر آجائیں۔
لھذا زمیں کا ظلم اور جور سے بھر جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام اہل زمین کا فاسد ہونا اور ظلم و جور کرنا ضروری ہو بلکہ چند لوگ بھی یہ کام کرستے ہیں۔
نتیجہ:
ان دو جوابوں کے علاوہ بھی علماء نے جواب دئیے ہیں لھذا اس حدیث کو غلط طرح سے تفسیر نہ کیا جائے اور لوگ دنیا کے ظلم و جور سے بھرنے کا انتظار نہ کریں بلکہ حدیث عدل و انصاف برپا کرنے کی طرف دعوت دے رہی ہے کہ واقعی منتظر وہ ہے جو عدل و انصاف کو برپا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
(۱)بحار الانوار، ج ۵۱،ص۷۴ اور مھدی موعود،ص۱۴۱
(۲)مزید مطالعہ کے لیئے دیکھیئے : بحار الانوار، ج ۵۱ اور ج۵۲۔ کمال الدین و تمام النعمۃ ،ج۲
(۳)اندیشہ انتظار،احمد زمانی، ص۶۶
Add new comment