خلاصہ: اس مضمون میں ظہور کے علامات اور اس کے شرائط کی آپس میں شباہت اور فرق کو بیان کیا گیا ہے، ایک شباہت ہے اور چند فرق ہیں جنہیں اس مقالہ میں بیان کیا گیا ہے اور پھر علامات ظہور کو معین کرنے کے بارے میں چند نکات اور پھر معین کرنے کے چند اصول ذکر کیے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگرچہ ظہور کے علامات کا ظہور کے شرائط کے ساتھ گہرا رابطہ ہے اور وہ یہ ہےکہ دونوں حضرت امام زمانہ (عج) کے ظہور سے پہلے واقع ہوں گے لیکن ان کا بعض جہات سے آپس میں فرق ہے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ظہور کا، شرائط پر منحصر ہونا حقیقی طور پر ہے یعنی اگر وہ شرائط فراہم نہ ہوں تو ظہور واقع نہیں ہوگا، لیکن علامات پر ظہور کا منحصر ہونا حقیقی نہیں ہے کیونکہ علامات، ظہور کی نشاندہی کرتی ہیں اور صرف ایک علامت کے ظاہر ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ظہور کا واقع ہونا ضروری ہے۔
۲۔ علامات ایسے بکھرے ہوئے واقعات ہیں جو غیبت کے دور میں پراگندہ صورت میں انجام پائیں گے، لیکن شرائط، ظہور کے وقت تک متصل اور جاری رہیں گے۔
۳۔ ظہور کے شرائط کے سلسلہ میں آدمی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر ظہور کے علامات اور جو روایات اس بارے میں معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں، اس دور کی پہچان کے لئے ہیں جس میں ہم زندگی بسر کررہے ہوں اور درج ذیل مقاصد کے لئے ہیں اور ان کے ذریعے ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جبکہ ظہور کے شرائط یعنی امام (عج) کی معرفت، ظہور کے لئے دعا اور ظہور کے لئے صبر اور تیاری کرنا وہی حقیقی انتظار ہے اور زمانہ غیبت میں مومنین کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔
کثیر روایات، آخرالزمان اور عصر ظہور کے واقعات کے بارے میں پائی جاتی ہیں جن میں عصر ظہور کے واقعات کا تذکرہ اور شخصیات کی علامات کو بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض روایات آسمانی اور زمینی علامات، مصیبتوں اور ناخوشگوار حادثات کے بارے میں ہیں جو ظہور سے پہلے کسی دور میں رونما ہوں گے۔ جیسے جنگ، وبائی بیماریاں اور طاعون اور ان میں سے بعض روایات مختلف ممالک کے سماجی اور سیاسی حالات کی نشاندہی کرتی ہیں اور کچھ روایات ظہور سے پہلے دور اور ظہور کے زمانے تک کی شخصیتوں کو بیان کرتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ روایات ظہور کے بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام سے کیوں نقل ہوئی ہیں، ان کا فائدہ کیا ہے اور ان کے سامنے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
اگر علامات ظہور کی روایات میں غور کیا جائے اور ان کی ہر لحاظ سے چھان بین کی جائے تو معاشرے میں ان کے شائع ہونے کے فائدے سمجھ میں آجائیں گے۔ اب ان میں سے ہم بعض کو بیان کرتے ہیں:
۱۔ گمراہ کن جھنڈوں اور دعوتوں سے لوگوں کی واقفیت۔
۲۔ حق پر مبنی دعوتوں اور وہ قیام جن میں لوگوں کو حق کی طرف دعوت دی جائے گی، ان سے آگاہی۔
۳۔ غیبی خبریں چونکہ عام حالات کے خلاف ہیں تو نبوت اور امامت کے سب سے اہم دلائل میں سے شمار ہوتی ہیں، لہذا ان کی اشاعت اور واقع ہونا، مسلمانوں کے دلوں میں یقین کے بڑھنے کا باعث ہے۔
۴۔ کیونکہ کفار، اسلام کو قبول کرنے کے لئے دلیل، برہان اور معجزہ کی تلاش میں ہیں، ان خبروں کے یقینی وقوع کے بعد، ان کے لئے حجت ہوں گی۔
۵۔ ظہور کی ہر علامت کے وقوع کے بعد، لوگوں کا اطمینان اصل ظہور کے بارے میں بڑھ جائے گا۔
۶۔ ظہور کی ہر ایک علامت کا وقوع، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خداوند متعال کا پختہ ارادہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو کفار کے خلاف دنیا بھر میں مدد کرے۔
۷۔ مسلمانوں میں ظہور کے لئے تیاری اور راستہ ہموار کرنے کا جذبہ پیدا ہونے کا باعث اور انہیں آنحضرت کی حکومت میں حاضر ہونے کے لئے نفسیاتی، سیاسی اور جہادی طور پر تیاری کا سبب ہے۔
۸۔ چونکہ انسان فطری طور پر غیبی خبریں سننے کا خواہشمند ہے تو اس طرح کی حقیقی اور اسلامی خبریں بیان ہونے سے، کاہنوں اور نجومیوں کی گمراہ کرنے والی افکار کی روک تھام ہوجائے گی۔
۹۔ ظہور کی کچھ اہم علامات، اسلام کے سیاسی امور میں سے شمار ہوتی ہیں جو اعلی حکام کو چاہیے کہ اپنے امور کی چھان بین میں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے منصوبوں کی وسیع پیمانے پر ان کے مطابق بنیاد رکھیں۔
۱۰۔ ظہور کی علامات ایسا مضمون نہیں ہے جو شیعوں یا مسلمانوں کے لئے مختص ہو بلکہ ہر دین میں لوگوں کو نجات دینے والے کے ظہور کی کم و بیش علامات کسی بھی نام سے بیان ہوئی ہیں۔
لہذا جو روایات ظہور کی علامات کے بارے میں اس لیے بیان ہوئی ہیں کہ نجات دہندہ اور قائم کے ظہور کے بارے میں لوگوں کے قلبی اطمینان اور یقین، مزید شناخت اور ایمان کی مضبوطی کا باعث ہوں، بنابریں ان روایات میں ہیرا پھیری اور تفسیر بہ رائے نہیں کرنی چاہیے۔ یہ روایات حق و باطل کی پہچان کے لئے ہیں اور حق و باطل کے ظاہر ہونے کے موقع پر علامات کی شناخت اور مطابقت کرنا ممکن ہے لہذا ظہور کی علامات کے سلسلہ میں روایات کا پایا جانا اس لیے نہیں ہے کہ موجود شخصیتوں کے نام رکھے جائیں اور موجود شخصیتوں سے حتمی اور یقینی طور پر مطابقت کی جائے۔ کیونکہ اگر ایسا کام خیال رکھتے ہوئے اور غور کے ساتھ انجام نہ پائے تو لوگوں کے افکار کی گمراہی اور اصل روایت کی فراموشی کا باعث بنے گا اور ہوسکتا ہے کہ اگر یہ مطابقت گہرائی کے ساتھ اور عالمانہ اور مستند طور پر نہ کی جائے تو حق والوں کو ایسا نقصان پہنچے جو ناقابل تلافی ہو اور واضح ہے کہ علامات کی مطابقت اور روایات کی تشریح اس کام کے ماہرین اور امور کے اولیاء کے ذریعہ انجام پانا چاہیے اور عام افراد جو علم حدیث اور علم رجال اور دیگر ضروری علوم میں لازمی حد تک مہارت اور تجربہ کے حامل نہ ہوتے ہوئے ان روایات کی تفسیر کرتے ہیں، ان پر اعتماد اور بھروسہ کرنے سے بچنا چاہیے۔
واضح رہے کہ جو مطابقت علمی اور تاریخی دستاویز کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور معقول طریقہ کار اور تحقیق کی مقبول اور عقلی طریقوں کی حامل ہو، اگر یہ مطابقت علامات ظہور کی چھان بین کرنے والے صحیح اصول کا خیال رکھتے ہوئے انجام پائی ہو اور نیز اس کے غیریقینی ہونے پر زور دیا ہو تو اس سلسلے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے اور قاری کے ذہن کو اس سے مربوطہ روایات کو سمجھنے کے لئے تیار کرتی ہے۔
ظہور کی علامات کی چھان بین کے لئے صحیح طریقہ کیا ہے؟
علامات ظہور کے سلسلہ میں تین مشکلوں کا سامنا پڑتا ہے جس میں سے ہر ایک کو غور سے پرکھنا چاہیے:
۱۔ علامت کی تصدیق معتبر دلیل کے ذریعے۔
۲۔ علامت کو ابہام کی حالت سے نکالنا۔
۳۔ علامت کے واقع ہونے کو ثابت کرنے یا اس کا انکار کرنے کے لئے یقینی قواعد کو پیش کرنا۔
علامات ظہور کی روایات کے صحیح ہونے کو ثابت کرنے کے لئے اور انہیں جعلی روایات سے الگ کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ثقہ اور قابل اطمینان افراد پر، معصوم (علیہ السلام) سے روایات کے بیان ہونے کے لئے اعتماد کیا جائے، کیونکہ علامات ظہور کی بعض روایات متواتر یا مستفیض یا صحیح اور معتبر ہیں اور بعض دیگر کی اگرچہ سند ضعیف ہے لیکن ان کے صحیح ہونے پر دیگر روایات میں کچھ موید اور ثبوت پائے جاتے ہیں جن کی سند صحیح ہے۔
لہذا علامات ظہور کا انکشاف، مطابقت اور نام رکھنا، مشکل کام ہے اور ان علامات کے ظاہر ہونے سے پہلے ان علامات کو یقینی طور پر اور عین مطابق متعین نہیں کیا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی ظہور کی شخصیتوں کی علامات کا بالکل واضح طور پر نام رکھنے سے پرہیز کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
یہ مطالب فارسی زبان میں مندرجہ ذیل ماہنامہ اور سایٹ پر موجود ہیں:
ماهنامه موعود (فارسی)، نمبر۱۱۷
http://www.hawzah.net/fa/Article//
Add new comment