خلاصہ: انسان کا کوئی بھی عمل بغیر انتظار کے قبول نہیں ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان جب بھی کوئی عمل انجام دیتا ہے تو اسکے عمل کو خدا کی بارگاہ میں شرف قبولیت تک پہونچنے کے لئے کوئی نہ کوئی شرط ضرور ہوتی ہے جسکے بغیر اسکا عمل قبول نہیں ہوتا، اسی لئے ان شرائط کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے جن میں سے ایک شرط کی طرف مولائے کائنات علی(علیہ السلام) اشارہ کر رہے ہیں کہ بے دین سےکسی بھی اچھے عمل کو قبول نہیں کیا جاتا:«اَیُّهَا النّاسُ! دینَکُم! دینَکم! تَمَسَّکُوا به ولایُزیلنَّکُم اَحَدٌ عنه. لِأنَّ السَّیِّئَةَ فیه خَیرٌ مِنَ الحَسَنَةِ فی غَیرِه. لِأَّنَّ السَیِّئَةَ فیه تُغفَرُ و الحَسَنَةَ فی غَیرِه لا تُقبَلُ[۱] اے لوگوں! اپنے دین کی حفاظت کرو! اسے تھامے رہو، کوئی تمھیں اس سے منحرف نہ کرے کیونکہ دیندار کا برا کام، بےدین کے اچھے کام سے بہتر ہے کیونکہ دیندار کا برا کام بخش دیا جاتا ہے لیکن بےدین کے ذریعہ انجام دیا گیا اچھا کام بھی قبول نہیں کیا جاتا»۔
اس حدیث کی روشنی میں ، انسان کو چایئے کے کسی بھی عمل سے پہلے دین کو اپنائے اور دیندار بنے تاکہ اس کا عمل قابل قبول ہو سکے۔ اسی سوال کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک شخص امام محمد باقر(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ وہ کونسا دین ہے جس میں عمل قبول کیا جاتا ہے؟ امام(علیہ السلام) نے فرمایا: «شَهادَةُ أن لاإلهَ الّا اللهُ وَحدَهُ لا شَریکَ له و أنَّ محمّداً (صلی الله علیه و آله و سلم) عَبدُهُ وَ رَسُولُهُ، و تُقِرُّ بِما جاءَ مِن عِندِاللهِ، والوِلایَةُ لَنا أَهلَ البَیتِ، وَ البَراءَةُ مِن عَدُوِّنا، والتَّسلیمُ لِأَمرِنا، والوَرَعُ، و التُّواضُعُ، وَ انتظارُ قائِمنا؛ فَإن لَنا دَولَةً إذا شاءَ اللهُ جاءَ بها[۲] خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی دینا، اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)، اللہ کے بندے اور اسکی جانب سے بھیجے ہوئے رسول ہیں، اسکی گواہی دینا، اور ان چیزوں کا اقرار کرنا جو خدا کی جانب سے آئی ہیں اور ہم اہل بیت(علیہم السلام) کی ولایت کا اقرار کرنا اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کرنا اور ہمارے حکم کی اطاعت کرنا اور زھد اور تقوی اور ہمارا انتقام لینے والے کا انتظار کرنا کیونکہ ہمارے لئے ایک دولت ہے جب خدا چاہیگا وہ محقق ہوگی»۔
اس حدیث کی روشنی میں انتظار دین کا رکن ہے۔
دوسری حدیث میں ابو بصیر امام صادق(علیہ السلام ) سے نقل کر رہے ہیں: «ألا اُخبِرکُم بِما لا یَقبَلُ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنَ العِبادِ عَمَلاً اِلّا به؛ کیا میں تم لوگوں کو خبر نہ دوں اس چیز کی کہ جس کے بغیر بندوں کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کیا جاتا»، ابوبصیر نے عرض کیا ضرور فرمائیے، اس وقت امام (علیہ اسلام) نے فرمایا: «شَهادَةُ أن لاإلهَ الّا اللهُ وَ أَنَّ مُحمّداً (صلی الله علیه و آله و سلم) عَبدُهُ [وَ رَسولُه]، و الاِقرارُ بِما اَمَرَالله، و الوِلایَةُ لنا، و البَراءَةُ مِن اَعداءِنا، - یعنی الأئمةَ خاصَّةً -و التسلیمُ لهم، و الوَرَعُ، و الاِجتِهادُ، وَ الطُّمَأَنِیَنةُ، وَ الانتِظارُ لِلقائِم[۳] خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی دینا اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)، اللہ کے بندے اور اسکی جانب سے بھیجے ہوئے رسول ہیں، کی گواہی دینا اور ان چیزوں کا اقرار کرنا جنکا خدا نے حکم دیا ہے اور ہم اہل بیت(علیہم السلام) کی ولایت کا اقرار کرنا اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا اور زھد، کوشش، اطمینان اور قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا انتظار کرنا۔
نتیجہ: ان احادیث کی روشنی میں جب تک انسان کے اندر انتظار کی حالت پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک اسکا کوئی بھی عمل بارگاہ خداوندی میں قبول نہیں ہوگا۔
خدا ہم سب کا شمار امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے حقیقی منتظرین میں فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد ابن یعقوب کلینی، کافی،تہران، ۱۴۰۷ ق،ج۲، ص۴۶۴۔
[۲]۔ کافی، ج۲، ص۴۳۔
[۳]۔ ابن ابی زینب، محمد ابن ابرہیم، الغیبۃ(للنعمانی)، باب ۱۱، ح۱۶، ص ۱۹۹.
Add new comment