خلاصہ: زمانہ غیبت سے متعلق روایات میں دو طرح کی حیرت بیان ہوئی ہے، ایک حیرت کا تعلق حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے ہے اور دوسری حیرت لوگوں سے متعلق ہے۔ یہاں پر دونوں روایات کو بیان کرنے کے بعد ان دو حیرتوں کا آپس میں فرق بیان کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زمانہ غیبت سے متعلق روایات میں دو طرح کی حیرت بیان ہوئی ہے، ایک حیرت کا تعلق حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے ہے اور دوسری حیرت لوگوں سے متعلق ہے۔ یہاں پر دونوں روایات کو بیان کرنے کے بعد ان دو حیرتوں کا آپس میں فرق بیان کرتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "کُن لِما لا تَرجُو أرجی مِنکَ لِما تَرجُو. فاِنَّ مُوسَی بنَ عِمرانَ(ع) خَرَجَ لِیَقتَبِسَ لِأَهلِهِ ناراً فَرَجَعَ الیهم وَ هُوَ رسولٌ نَبِیٌّ. فَأَصلَحَ اللهُ تبارَک و تعالی أمرَ عّبدِه و نبیِّه موسی (ع) فی لَیلَةٍ. وَ هکَذا یَفعَلُ اللهُ تَبارَکَ وَ تَعالی بِالقائِمِ الثانی عَشَرَ مِنَ الاَئِمَةِ (ع) یُصلِحُ لَهُ أَمرَه فی لیلةٍ کما أصلَحَ أمرَ نَبّیِّه موسی(ع) و یُخرِجُهُ مِنَ الحَیرَةِ وَ الغَیبَةِ اِلی نُورِ الفَرَجِ و الظُهورِ"[1]، " جس چیز (کے وقوع) کی تمہیں امید نہ ہو، اس چیز سے زیادہ امیدوار رہو بہ نسبت اس چیز کے جس (کے وقوع) پر امیدوار ہو، بیشک حضرت موسی بن عمران (علیہ السلام) اپنے گھرانہ کے لئے آگ لینے گئے اور اس حال میں واپس آئے کہ پیغمبر تھے ۔ پس خدا نے اپنے عبد اور نبی موسی (علیہ السلام) کے کام کی ایک رات میں اصلاح کی اور خداوند متعال حضرت قائم بارہویں امام (علیہ السلام) کے لئے بھی یوں ہی کرے گا۔ ان کے امر (ظہور) کی ایک رات میں اصلاح کرے گا، جیسے اپنے نبی موسی (علیہ السلام) کے کام کی اصلاح کی، اور آنحضرت کو حیرت اور غیبت سے فرج اور ظہور کے نور کی طرف نکالے گا۔
اس حدیث میں امام (ع) کا غیبت سے نکلنا واضح ہے لیکن حیرت سے نکلنے کا کیا مطلب ہے؟ آپ کے لئے کون سی حیرت پائی جاتی ہے جس سے آپ امر فرج کی اصلاح کے ذریعہ نکلیں گے؟
ظاہراً حدیث کی عبارت میں لف و نشر مرتب پائی جاتی ہے یعنی دو حالتوں سے دو دیگر حالتوں میں خارج ہونا ترتیب کے ساتھ، غیبت کی حالت سے ظہور میں اور حیرت کی حالت سے فرج کی روشنی میں۔ لہذا امام زمانہ (علیہ السلام) کی حیرت والی حالت آپ کے فرج کی مدمقابل ہے۔ بنابریں آپ کی حیرت ان مشکلات اور دشواریوں سے متعلق ہے جن میں آپ زمانہ غیبت میں مبتلا ہیں۔ شاید کہا جاسکے کہ آپ کا اپنے ظہور کے وقت سے آگاہ نہ ہونا، دور غیبت میں حیرت کی وجہ ہے۔ آپ ایک طرف سے مومنین، مظلوموں اور کمزور لوگوں کو دنیا بھر میں مشکلات اور تکلیفوں میں دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان سب لوگوں کا مکمل فرج آپ کے ذریعہ ہے اور دوسری طرف سے نہیں جانتے کہ خداوند متعال فرج کا اذن کب دے گا اور اللہ تعالی کب اجازت دے گا کہ آپ پوری زمین پر عدل و انصاف قائم کریں۔ (البتہ محدود اور کم و بیش مدد کے علاوہ جو دور غیبت میں بھی جاری ہے)۔
آپ کی پریشانی اور دکھ کی شدت، تمام مصائب اور دشواریوں کو برداشت کرنے کی وجہ سے ایک طرف سے اور مسلسل بارگاہ الہی میں دعا کرنا اور مکمل اور انتہائی فرج کی تعجیل کی التجا کرنا باوجود یکہ اس دعا کے مستجاب ہونے کے وقت سے آگاہ نہ ہونا دوسری طرف سے، امام عصر (علیہ السلام) کو ایسی حیرت میں مبتلا کرتا ہے کہ آپ کی پریشانیوں اور دکھ کو بڑھا دیتا ہے۔ یہی معنی دوسرے لفظوں میں دعائے عبرات میں بیان ہوئے ہیں: "تری تحیّری فی اَمری"۔
واضح رہے کہ یہ حیرت خود امام زمانہ (علیہ السلام) سے متعلق ہے اور حدیث کے مطابق خداوند آنحضرت کو حیرت سے فرج کے نور کی طرف نکالے گا، لیکن احادیث میں ایک اور حیرت بھی بیان ہوئی ہے جو زمانہ غیبت کے لوگوں سے متعلق ہے اور اس کا امام مہدی (علیہ السلام) کی حیرت سے جو دور غیبت میں ہے، بالکل فرق ہے۔
لوگوں کی حیرت صحیح راستے اور صراط مستقیم کو گم کردینے کی وجہ سے ہے جس کی امام (ع) کے زمانہ غیبت میں شناخت دیگر زمانوں سے زیادہ مشکل ہے۔ امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے:
"أما إنَّ له غَیبَةً یَحارُ فیها الجاهِلون و یَهلِکُ فیها المُبطِلونَ وَ یَکذِبُ فیها الوَقّاتونَ"[2] بیشک اس کی (میرے فرزند کی) ایسی غیبت ہے جس میں جاہل لوگ حیرت میں پڑجائیں گے اور اہل باطل ہلاک ہوجائیں گے اور جو (ظہور کے لئے) وقت متعین کرتے ہیں، جھوٹے ہیں۔
اس روایت کے مطابق اس حیرت کا تعلق جاہلوں سے ہے اور ان لوگوں سے ہے جو زمانہ غیبت میں اپنا فریضہ نہیں جانتے، لہذا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: " کیف اَنتم إذا صِرتُم فی حالٍ لا تَرَونَ فیها اِمامَ هدَیً و لا عَلَماً یُری؟ فَلا یَنجُو مِن تِلکَ الحیرَةِ اِلّا من دَعا بِدُعاء الغَریقِ"[3] تم لوگ کیسے ہوگے ہو جب ایسی صورتحال میں قرار پاوگے جس میں ہدایت کے کسی امام اور کسی واضح علامت کو نہیں دیکھو گے؟ اس وقت سوائے اس شخص کے جو دعائے غریق پڑھے اس حیرت سے نجات نہیں پائے گا۔
یہاں پر ان لوگوں کی حیرت کی بات ہورہی ہے جو امام کی غیبت کے زمانے میں اپنے فریضہ سے آگاہ نہیں ہیں اور اگر وہ اس نقص کو دور کردیں تو اس حیرت سے نکل آئیں گے۔ دور غیبت کی احادیث میں اکثر جب "حیرت" کی بات کی گئی ہے تو یہی مذموم معنی مراد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] کمال الدین باب 6 ح 13کی انتها.
[2] بحارالانوار ج 51 ص 160 ح 7.
[3] غیبت نعمانی ص 159.
Add new comment