خلاصہ: امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے متعلق زمانہ غیبت کہ جو دو دستوں میں تقسیم ہوتا ہے ایک غیبت صغری ہے اور دوسرا غیبت کبری ۔
غیبت صغری:
امام حسن عسکری (علیه السلام)۲۶۰ ہجری قمری ۸ ربیع الاول عباسی خلیفہ معتمد عباسی کے ہاتھوں شھید ہو جاتے ہیں تب امام عصر (علیہ السلام) کی عمر ۵ سال تھی اور امام (علیہ السلام) نے اپنے بابا کی نماز جنازہ پڑھائی(۱) اور پھر اس کے بعد امام (علیہ السلام) کی غیبت صغری کا آغاز ہوا۔
علماء کا کہنا ہے امام (علیہ السلام) کی غیبت صغری کا آغاز جب ہوا تب آپ کا سن ۵ سال اور سال ۲۶۰ ہجری قمری تھا (۲)۔
غیبت صغری 329 ہجری قمری تک جاری رہی اس تاریخ کے مطابق آپ (علیہ السلام) کی عمر ۶۹ سال بنتی ہے ۔
غیبت صغری کا زمانہ ایسا تھا کہ جس میں امام (علیہ السلام) نے چار با تقوی لوگوں کو اپنا نائب مقرر کیا اب جب شیعوں کو کوئی بھی سوال پیش آتا تھا تو انکے ذریعے وہ امام (علیہ السلام) سے ان کا حل لے لیتے تھے اور تاریخ ان چار افرادکو نوّاب خاص کے نام سے یاد کرتی ہے ۔
نوّاب خاص امام عصر علیہ السلام
غیبت صغری میں امام(علیہ السلام) کے فقط چار حقیقی نائب تھے۔ میں یہاں پر مختصر طور پر ان کی زندگی کی طرف اشارہ کروں گا :
۱۔ ابو عمرو، عثمان بن سعید، یہ گیارہ سال کے سن میں ائمہ کی خدمت میں تھے اور امام ھادی (علیہ السلام) کے مورد اعتماد صحابی تھے ۔یہ وہ صحابی ہیں کہ جو ۲۶۰ ہجری قمری سے لے کر ۲۶۷ ہجری قمری تک امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف )کے نائب خاص رہے ہیں ۔
۲۔ ابوجعفر محمد بن عثمان، یہ نائب اوّل کے بیٹے تھے کہ جو ۲۶۷ ہجری قمری سے لے کر ۳۰۵ ہجری قمری تک نائب خاص امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) رہے ہیں ۔
۳۔ ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی، یہ عالم بزرگوار ۳۰۵ ہجری قمری سے لے کر ۳۲۶ ہجری قمری تک نائب خاص امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ) رہے ہیں ۔
۴۔ ابوالحسن علی بن محمد سیمری،یہ ۳۲۶ ہجری قمری سے لے کر ۳۲۹ ہجری قمری تک امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف )کے نائب خاص رہے ہیں ۔
ایک بات کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ ان نواب اربعہ کے وظائف کیا تھے :
الف:امام (علیہ السلام) کی ولادت کے بارے میں لوگوں کے شک اور شبھات کودور کرنا۔
ب:امام (علیہ السلام) پر جو تہمتیں لگائی جارہی تھی ان سے دفاع کرنا۔
ج: امام (علیہ السلام) کے رہنے کی جگہ کو مخفی رکھنا ۔
د:لوگوں کے فقھی اور اعتقادی سوالوں کا جواب دینا ۔
ہ:امامت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو جھٹلانا ۔
و:لوگوں کو غیبت کبری کے لیے تیار کرنا۔
ز:لوگوں کی مدد کرنا۔
ح:شرعی وجوہات کا تقسیم کرنا۔
ط:امام (علیہ السلام) کی حفاظت کرنا۔
غیبت کبری:
امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف )کے چوتھے نائب خاص کی رحلت کے بعد غیبت کبری کا آغاز ہوتا ہے اور یہ غیبت کبری کا عرصہ کب ختم ہو گا کوئی نہیں جانتا سوائے خدا کے ،شیعوں کے لیے یہ سخت ترین مرحلہ ہے کیونکہ نہیں معلوم کب ظہور ہوگا اور نائب خاص بھی معین نہیں ہوئے کہ امام (علیہ السلام) تک رسائی ہو یہی وجہ ہے کہ دینی اعتقادات کو حفظ کرنا بہت سخت ہو گیا ہے ۔البتہ جیسے روایات میں ملتا ہے کہ یہ ہمارے لیے ایک امتحان کی گھڑی ہے کہ ہم کتنا معتقد ہیں اپنے امام سے اور ان کے لیے کیا زمینہ فراہم کر رہے کہ ان کا ظہور ہوجائے ۔
یا اصلا ً ہمیں امام (علیہ السلام) کی ضرورت بھی ہے یا نہیں ۔
جبکہ روایت تو یہ کہہ رہی ہے کہ : ایک لحظہ بھی زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی ۔یا ایک اور روایت میں ہے کہ امام کا نوراہل زمین کے لیے ایسے ضروری ہے جیسے سورج کا نور زمین کے لیے ۔ (۳)
نتیجہ
امام زمانہ (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف)سے متعلق غیبت کا جو زمانہ کہا جاتا ہے وہ دو طرح کا ہے ایک وہ جسے غیبت صغری کہا گیا ہے اور ایک وہ کہ جسے غیبت کبری کہا گیا ہے غیبت صغری کا زمانہ کہ جس میں امام (علیہ السلام) اور شیعوں کے درمیان نواب اربعہ کا وجود تھا لیکن غیبت کبری میں مراجع عظام کی صورت میں نائب امام موجود ہیں کہ جو دین اسلام کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں اور حقیقت میں مختلف طریقوں سے امام (علیہ السلام) کی ان کو تائید بھی حاصل ہے بلکہ یہاں تک کہ امام (علیہ السلام) نے یہ فرمایا ہے کہ یہ مراجع تمہارے اوپر میری طرف سے حجت ہیں اور میں اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱. ر.ک: سیره معصومان، ص ۲۵۹.
۲. سیره معصومان ، ص ۲۷۲.
۳. بحارالانوار، ج ۵۲، ص ۹۲
Add new comment