خلاصہ:حجر الاسود فقط اور فقط معصوم ہی نصب کر سکتے ہیں ۔
339 ہجری قمری میں قرامطہ(۱) نے یہ طے کر لیا تھا کہ حجرالاسود کو ۲۰ یا ۲۲ سال کے بعد غاصبوں سے لے کر اپنی جگہ نصب کریں۔
شیخ ابولقاسم قمی معروف ابن قولویہ کو یہ خبر ملی تو خوش ہو گئے کیونکہ یہ جانتے تھے کہ حجرالاسود کو فقط حجت خدا ہی نصب کر سکتے ہیں لہذا اپنے امام کے دیدار کے عشق میں زیارت خانہ خدا کی نیت سے قم المقدس سے حرکت کرتے ہیں جب عراق کے شھر بغداد پہنچتے ہیں تو وہ سخت مریض ہو جاتے ہیں اور پھر ایک نیک شخص کو پورے سفر کا خرچہ اور ایک خط دیتے ہیں کہ جاؤ اور جو بھی حجرالاسود کو نصب کرے اسے یہ خط دے دینا ۔
البتہ قطب راوندی ابن قولویہ کی زبانی یوں نقل کرتے ہیں کہ(۲):۳۳۹ ہجری قمری میں جب اپنے امام (علیہ السلام) کی زیارت کے شوق سے گھر سے چلا تو جیسے ہی بغداد پہنچا تو ایسا مریض ہوا کہ بالکل میرے جسم میں ہمت نہیں تھی کہ اب میں سفر کر سکوں اور خود کو مکہ پہچا سکوں اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ حجرالاسود کو فقط معصوم ہی نصب کر سکتے ہیں ان کے علاوہ کوئی نہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ حجاج کے زمانے میں حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) نے حجرالاسود کو اپنی جگہ نصب کیا تھا ۔
اس بیماری نے مجھے ایسا کر دیا کہ میں اب ڈر گیا کہ بس اب میری موت کا وقت آگیا ہے پھر میں نے ایک شخص کہ جو ابن ہشام کے نام سے معروف تھا اور امام (علیہ السلام) سے بھی محبت کرتا تھا اسے بلایا سفر کا خرچ اور خط اسے دیا کہ جب امام (علیہ السلام) سے ملنا تو یہ خط میرے مولا کو دے دینا میں نے خط میں اپنی موت کے بارے میں امام (علیہ السلام) سے سوال کیا تھا اور ابن ہشام سے کہا کہ دیکھو اس خط کا جواب بھی لے کر آنا اور مجھے تم پر پورا یقین ہے اسی لیے تمہیں اپنا قاصد بنا رہا ہوں ۔
ابن ہشام کہتا ہے :جب میں مکہ پہنچا تو خانہ کعبہ کے خادموں کو میں نے پیسے دیے تاکہ مجھے ایسی جگہ بیٹھائیں جہاں میں صحیح طریقے سے حجر الاسود کو نصب ہوتے دیکھ سکوں ۔
آخر کار وہ وقت آ گیا کہ جس کا انتظار تھا لوگوں کا ہجوم ہے کچھ لوگ آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے کوشش کی کہ حجر الاسود کو اپنی جگہ نصب کریں لیکن حجر الاسود اپنی جگہ نہیں ٹہر رہا تھا اتنےمیں ایک جوان ظاہر ہوئے اور انہوں نے حجرالاسود کو اپنی جگہ نصب کیا تو حجر الاسود اپنی جگہ نصب ہو گیا میں سمجھ گیا کہ یہی امام زمانہ(علیہ السلام) ہیں لوگ خوشی میں مصروف تھے کہ بالاخر حجرالاسود نصب ہو گیا اور یہ جوان وہاں سے چل پڑے اور میں ان کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا جبکہ میرا جسم کانپ رہا تھا اور مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ آئی جہاں فقط میں اور میرے مولا تھے امام (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ رک کر میری طرف دیکھا اور فرمایا ابن ہشام وہ خط مجھے دو امام (علیہ السلام) نے خط لیا اور فرمایا:ابن قولویہ سے کہنا یہ تمہاری بیماری عارضی بیماری ہے تم بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے اور تمہاری موت ۳۰ سال کے بعد ہے یعنی تم ابھی ۳۰ سال اور زندہ رہو گے ۔
ابن قولویہ کہتے ہیں جیسے میرے مولا نے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا ۔
نتیجہ
اس عالم ربانی کے اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد ہمیں یہ درس حاصل ہوتا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے امام (علیہ السلام) کی معرفت ہونا چاہیے اور دوسری بات یہ ہے کہ جو بھی سچے دل سے یہ کوشش کرے اپنے امام کی زیارت کرے تو اگر حقیقی معرفت رکھتا ہو گا تو اسے زیارت نصیب ہوگی اور تیسری بات یہ ہے کہ امام (علیہ السلام) کو ہمارے ایک ایک پل کی خبر ہے یہاں تک کہ ہماری موت کب واقع ہو گی وہ اس سے بھی آگاہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
یہ واقعہ مندرجہ ذیل کتابوں میں موجود ہے:
الخرايج والجرايح، ج ۱، ص ۴۷۵؛ ذرايع البيان، ج ۲، ص ۹۲؛ سفينةالبحار، ج ۱، ص ۱۶۲.
(۱) اسماعیلی گروہ تھا جسنے عباسی حکومت کا تختہ پلٹا۔
(۲)الخرائج و الجرائح،ج۱،ص۴۷۶
Add new comment