انتظار ایک عظیم نعمت خداوندی ہے جسمیں انسان اپنے کردار اور گفتار کی اصلاح کے ذریعے اپنے آپ اور اپنے معاشرے کو کائنات کی عظیم اور مثالی حکومت کے لئے تیار کرسکتا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان فردی اور اجتماعی طور پر پہلے خود تیار ہوجائے تاکہ پورے عالم کی آفاقی حکومت کی تیاری کے قابل بنے۔
امام زمانہ (ع) کا ظہور خدا کے نہ بدلنے والے فیصلوں میں ہے۔ کیونکہ خدا نے اس دنیا کو بلندی اور کمال تک پہنچنے کے لئے بنایا ہے جیساکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ "وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون" ہم نے جن اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری بندگی کریں۔ زندگی کے ہر میدان میں خدا کی بندگی وہ آخری کمال اور بلندی ہے جس کے لئے خدا نے انسانوں کو بنایا ہے اور اگر یہ دنیا ظلم اور ناانصافی پر ختم ہوجائے تو دنیا کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
آخری امام کو ظہور کے بعد پوری دنیا میں خدا کی بندگی کا پرچم لہرانا ہوگا۔ اگر کسی ملک میں کوئی تبدیلی آنا ہو تو لوگوں کو اس کے لئے کتنی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ اگرکوئی ملک کسی دوسرے ملک کا غلام ہو یا اس ملک میں ڈکٹیٹرشپ چل رہی ہو اور لوگ اپنے ملک کو آزاد کرانا چاہتے ہوں تو اس کے لئے انہیں کتنی تیاری کرنا ہوتی ہے، اپنے آپ کو بدلنا ہوتا ہے، جیسے حالات ہوتے ہیں اس کے حساب سے وہ انقلاب لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ملک کو آزاد کرانے کےلئے اسلحے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اسلحہ استعمال کرتے ہیں، اگر قربانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ قربانی دیتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ اچانک قربانی دینے کے لئے تیار ہوجائیں بلکہ اس کے لئے انہیں کئی سالوں تک کوشش کرنا ہوتی ہے،جتنا بڑا انقلاب ہوتا ہے اتنے ہی سال اس کی تیاری میں لگتے ہیں، لوگوں کو اپنے آپ کو بدلنا ہوتا ہے، اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوتا ہے، اپنا کردار بدلنا ہوتا ہے تب کہیں وہ ملک کے لئے اپنی قربانی دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ورنہ جو لوگ اپنی زندگی میں مست مگن رہتے ہیں انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی ہے کہ وہ غلام ہیں اور اگر وہ سمجھتے بھی ہیں تب بھی وہ اپنے آپ کو غلامی سے آزاد کرانے کے لئے کوشش نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس کے لئے انہیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا، اپنی زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی، جس عیش و آرام کو وہ اچھا سمجھ رہے ہیں اسے چھوڑنا ہوگا لیکن وہ یہ سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں آزادی کی قیمت نہیں معلوم ہے، وہ غلامی میں رہ کر تھوڑے بہت عیش و آرام کو اچھا سمجھتے ہیں اور اسی میں خوش رہتےہیں۔ مگر جو لوگ جانتے ہیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے وہ اس کے لئے کوشش کرتے ہیں اور پھر ان کے لئے اپنی زندگی بدلنا اور عیش و آرام چھوڑنا آسان ہوجاتا ہے ۔(1)
ہم جس عالمی مثالی حکومت کا انتظار کررہے ہیں اسکے کچھ تقاضے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ پرسنل تیاری: جیسا کہ ہم نے اوپر کہا کہ کوئی بھی باہری انقلاب، اندرونی انقلاب کے بعد ہی آتا ہے۔ جب تک خود انسان کے اندر کوئی بدلاؤ نہ ہو تب تک وہ باہر کوئی بدلاؤ نہیں لاسکتا ہے۔ جب تک لوگوں کے سوچنے کا انداز اور کردار نہ بدل جائے تب تک وہ اس دنیا میں کچھ بھی نہیں بدل سکتے ہیں۔ دنیا میں جتنے لوگ انقلاب لائے ہیں یا انہوں نے بڑی تبدیلیاں کی ہیں اور جن لوگوں نے ان کا ساتھ دیا ہے ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں کہ پہلے انہوں نے اپنے آپ کو بدلا ہے، وہ اپنے اندر ایک انقلاب لائے ہیں اور پھر وہ باہر انقلاب لانے میں کامیاب رہے ہیں۔
پرسنل تیاری کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کردار کو اچھا بنا لے، نمازیں پڑھے، دعائیں پڑھے اور گناہوں سے دور رہے بلکہ جیسا انقلاب ہوتا ہے اس کے لئے ویسی ہی تیاری کرنا ہوتی ہے۔ امام پوری دنیا کے سسٹم کو بدلیں گے اور اس سسٹم میں ظالم اور گناہگار لوگوں کی جگہ نیک کردار انسانوں کو لائیں گے لیکن یہ لوگ ایسے نہیں ہوں گے جو صرف مسجد میں بیٹھ کر عبادت کرنا جانتے ہوں گے بلکہ یہ دنیا کا سسٹم چلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ یہ خدا کی بندگی کریں گے لیکن صرف مسجد میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں۔(2)
2۔لوگوں کا ذہنی اعتبار سے تیار رہنا: یعنی لوگوں کی سوچ اتنی بلند ہوجائے کہ وہ رنگ، نسل اور ملک کا فرق بھول جائیں اور کسی ایسے آدمی کی بات ماننے کی صلاحیت رکھتے ہوں جو نہ ان کے رنگ اور نسل کا ہے اورنہ ان کے ملک کا لیکن وہ سچائی اور انصاف کی طرف بلانے والا ہے اس لئے لوگ اس کی بات ماننے پر تیار ہوں۔
3۔سماجی تیاری: لوگ ظلم اور ناانصافی کرنے والی حکومتوں اور انسانوں کا خون چوسنے والے سسٹم سے اتنے پریشان اور تھک چکے ہوں کہ وہ سب کسی نجات دینے والے کی طرف آنکھ لگائے بیٹھے ہوں ۔وہ یہ سمجھ گئے ہوں کہ اب دنیا کے یہ سسٹم انہیں اچھی زندگی نہیں دے سکتے ہیں۔ نہ انہیں اس دنیا میں سکون دے سکتے ہیں اور نہ آخرت کی زندگی کے لئے کچھ کرسکتے ہیں۔ اس لئے انہیں کسی ایسے آدمی کا انتظار ہوگا جو خدا کی طرف سے آئے اور انہیں اس دنیا اور آخرت کی وہ ساری نعمتیں دے جن کی وہ ہمیشہ آرزو کرتے رہے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ(ع) کے ظہور کی دعا مانگنے والوں کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اچھا بنائیں بلکہ ان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سماج کو اچھا بنانے کی کوشش کریں، لوگوں کو ظالم حکومتوں کے ظلم کے بارے میں بتائیں، ان میں ظالموں سے نفرت اور ان سے مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کریں۔ ورنہ ظالموں کے ظلم کے سامنے خاموش بیٹھ کر امام کے ظہور کی دعا کرنا مناسب نہیں ہے بلکہ ظالموں کی مخالفت امام زمانہ(ع) کی حمایت ہے۔(3)
جب ہم یہ تینوں چیزیں سمجھ جائیں گے تب ہمیں معلوم ہوگا کہ روایات میں "انتظار" پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے اور یہ کیوں کہا گیا ہے کہ انتظار سب سے بڑا عمل ہے۔ یعنی انتظار عمل کرنے کا نام ہے، خاموش بیٹھ جانے کا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)نسیم موعود ص 12 مھدویت ریسرچ سنٹر قم 2012
(2) صبح انتظار ہاشم عمیدی ترجمہ اخلاق حسین ص 67 جامعۃ المصطفی العالمیہ ایران قم 2008
(3) بصیرت میگزین سیریل نمبر 3 ص 54 ،بصیرت آرگنایزیشن پاکستان قم 2013
Add new comment