خلاصہ: اس میں کیا حرج تھا کہ اگر امام زمانہ (علیہ السلام) ظہور کے دورانیہ میں پیدا ہوتے اور اس وقت اپنی سیاست کو نافذ کرتے؟ اس سوال کے دو جواب دیئے ہیں، اولاً زمین حجت خدا سے کبھی خالی نہیں ہے دوسرا یہ کہ جس شخص کو عالمی سطح پر تبدیلی لانا ہے، اسے تاریخ میں رہ کر تاریخ کے نشیب و فراز سے واقفیت حاصل کرنا پڑے گی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال یہ ہے کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی ولادت ظہور کے زمانے میں ہو تا کہ آنحضرت اسی زمانے میں اپنا کردار ادا کریں؟ اس کے چند جوابات ہیں:
پہلا: ہم مسلمان خاص کر شیعوں کے عقیدے کے مطابق زمین کبھی بھی حجت سے خالی نہیں رہتی، چاہے ظاہری طور پر اور چاہے باطنی طور پر۔[1] اگر امام زمانہ (علیہ السلام) گزشتہ زمانے میں پیدا نہ ہوچکے ہوتے اور اس کے بعد دنیا میں قدم رکھتے تو اس فاصلے میں زمین حجت اور امام کے بغیر رہ جاتی اور یہ بات ہم مسلمانوں کے یقینی دلائل اور عقیدے کے مطابق نہیں ہے۔[2]
دوسرا: جس شخص کو دنیا میں تبدیلی لانی ہے، ہر لحاظ سے اور وسیع پیمانے پر اصلاحات کرنی ہیں، عدل کو قائم کرتے ہوئے ظلم و ستم کی سب قسموں کا خاتمہ کرنا ہے، انسانی تمدن، جو مال، جبر اور دھوکے کے آسرے پر کھڑا ہے اسے برباد کرتے ہوئے وہ تمدن قائم کرنا ہے جو خدائی اور معنوی اقدار کی بنیاد پر ہو۔ نئے اور ترقی یافتہ اوزار سے واقف ہونا ہے، مختلف تمدنوں کے نشیب و فراز کو پہچاننا ہے اور قوموں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے اسباب سے تجربہ حاصل کرنا ہے تا کہ بنیادی تحریک کا آغاز اور اس کی قیادت کرسکیں اور لوگوں کے سامنے کھڑی رکاوٹوں کو ہٹا سکیں۔
ایسا کام کسی شخص سے ممکن نہیں ہے مگر وہ شخص جس نے تمدنوں کے طلوع و غروب کو دیکھا ہو اور بہت سے تجربوں اور پہچان کے ساتھ میدان میں آئے۔ لہذا امام زمانہ (علیہ السلام) طویل غیبت کے دوران، فاسد دنیا کے مقابلہ میں نیک معاشرہ بنانے کے طریقوں کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور علم و اقتدار اور مناسب وقت میں اللہ کے اذن سے ظہور کریں گے اور آپ کا تمام انسانی طورطریقوں پر احاطہ ہوگا اور ان سے مقابلہ کرنے کے طریقوں کو اچھی طرح سے جانتے ہوں گے اور یہ کام، امامت اور غیبت کے طویل عرصہ میں ظہور تک آنحضرت کے لئے مقدور ہے، غیبت اور عمر کا طویل ہونا باعث بنتا ہے کہ وہ ذخیرہ کیا گیا رہبر، بہتر اور زیادہ وسیع طور پر اپنی رہبری کا آغاز کرے۔
اتنے عظیم اور گہرے انقلاب کا لازمہ، خاص روحانی مقام ہے جس کا مکتب کے رہبر کو حامل ہونا چاہیے۔ روحانی توانائی کی مقدار، اس فراز و نشیب اور تبدیلیوں پر منحصر ہے جو رہبر نے دیکھی ہیں۔ امام مہدی (علیہ السلام) قلب تاریخ میں اتر کر امامت کے منصب اور اپنی فوقیت کے ذریعے تاریخ پر ضوفشانی کرتے ہوئے، اس طویل مدت میں کی ہوئی جانچ پڑتال اور حاصل کردہ تجربہ کے ذریعے جہان کی بنیادی طور پر تبدیلی کرنے کی طاقت کے حامل ہوں گے اور ہر طرح کی اصلاح فرمائیں گے، ان شاء اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
میگزین حوزہ ۱۳۷۴، نمبر ۷۰، ۷۱ سے ماخوذ۔
[1] اصول کافی, ج۱، ص۱۷۸.
[2] اصول کافی, ج۱، ص۱۸۰.
Add new comment