دعا کی عظمت اور ماہ مبارک رمضان

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مضمون میں دعا کے حوالے سے کچھ باتیں پیش کی گئی ہیں اور ماہ رمضان میں دعا کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔

دعا کی عظمت اور ماہ مبارک رمضان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خداوند متعال نے اپنے بندوں کو خلق کرنے کے بعد بے سہارا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسکی مادّی اور معنوی ضروریات  کو پورا کرنے  کے لیئے بہترین راستے فراہم کئے ہیں۔
 یہ بات بھی  ایک حقیقت  ہے کہ اگر ہماری معنوی زندگی اچھی ہے تو ہماری مادّی زندگی بھی خوشگوار بن جاتی ہے۔
اسی بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے پروردگار نے اپنے بندوں پر رحم کیا کہ انکو یہ اجازت دی کہ بندے اس سے راز و نیاز کر سکیں، بات چیت  کریں، اپنے دل کے  حالات کو بتا کر دل ہلکا کریں اور خود اسی نے ہی اس  کام  کا سلیقہ بھی سکھایا۔ 
اسی لیئے  اسلامی تعلیمات میں دعائیں موجود ہیں اور حکم دیا گیا ہے کہ دعا کیا کرو۔ رب العزت نے فرمایا ’’ اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا ‘‘ (۱)یا دوسرے مقام پر فرمایا ’’ پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا ‘‘(۲) اور قرآن مجید میں بے پناہ ایسی مثالیں ہیں  کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دعا  کا پڑہنا نہ صرف حاجات طلب کرنے  کا نام ہے بلکہ دعا کرنے کو  ایک ثقافت کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔

دعا مانگنے کا سلیقہ:
ہر نبیِ خدا نے بارگاہ الٰہی میں دعا مانگی ہے، جس کا قرآن میں متعدد مقامات پر ذکر ہے(۳)اور ہم کو درس دیا ہے کہ دعا کیسے مانگی جائے، اسی طرح معصومیں (علیہم السلام)  نے بھی دعاؤں کے ذریعہ  معارف الٰھی کا  بحرِ بےکراں  ہمارے حوالے کر دیا کہ جس میں غوطہ زن ہو کر  رنگ الٰہی میں اپنے کو ڈھال سکتے ہیں، جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے ’’ رنگ تو صرف اللہ کا رنگ ہے اور اس سے بہتر کس کا رنگ ہوسکتا ہے ‘‘(۴)خداوندِ عالم کی بے پناہ  رحمتوں اور  بندوں پر بے شمار نعمتون  کی ایک نشانی یہ ہے کہ اسنے (عزّ شانہ) اہلبیت (علیہم السلام) کہ جو  معدن رسالت اور خزائن وحی و شریعت ہیں، حبل اللہ المتین اور عروۃ الوثقیٰ ہیں،  ان ذاوات مقدسہ کے ذریعہ بندگی کا سلیقہ اور راز و نیار کا طریقہ  سکھایا ہے۔ اگر یہ انوار پاک دعا نہ مانگیں تو ہم بھی کبھی دعا نہ  مانگ پاتے۔ یہ وہ خاصانِ خدا ہیں کہ جنکی زندگی کا ایک ایک عمل ہمارے لیئے مشعلِ راہ ہے۔ امام زین العابدین (علیہ السلام) کی صحیفہ سجادیہ [صحیفہ کاملہ] ان تعلیمات کی بہترین مثال  ہے۔
دعا، عبد و معبود کے درمیان رابطہ کا نام ہے۔
دعا، اپنے خالق  کے ساتھ تنہائی میں دل کی باتیں بیان کرنا، اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کا نام ہے۔
دعا، اللہ سے محبت اور وفاداری کے اظہار  کا نام ہے۔ دعا، مؤمن کا اسلحہ ہے۔(۵)
دعا، بلائوں سے دوری(۶) اور  ہر درد کی دوا ہے(۷)۔

آدابِ دعا:
۱) ہر دعا کو بسم اللہ سے شروع کیا جائے، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلیہ و سلم ) سے روایت ہے کہ[لا يرد دعاء اوله بسم الله الرحمن الرحيم ] ’’وہ دعا  ردّ نہیں ہوتی جس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہوتی ہے‘‘(۸)
۲)دعا سے پہلے خداوندِ عالم کی مدح و ثنا اور اہلبیت اطہار پر درود و سلام بھیجنا چاہیئے۔ امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: [إِيَّاكُمْ إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَسْأَلَ‏ مِنْ‏ رَبِّهِ شَيْئاً مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ حَتّى‏ يَبْدَأَ بِالثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ- عَزَّ وَ جَلَّ- وَ الْمَدْحِ لَهُ، وَ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، ثُمَّ يَسْأَلَ اللَّهَ حَوَائِجَه‏](۹) ’’خبردار، جب بھی تم میں سے کوئی اپنے ربّ سے دنیا  اور آخرت کی حاجات طلب کرنے کا ارادہ کرے، تو دعا شروع نہ کرنا مگر یہ کہ پہلے اللہ عزّ و جلّ کی حمد و ثنا  کرنا پھر رسول اور آل رسول پر درود  بھیجنا اور پھر اپنی حاجت طلب کرنا ‘‘
۳)دعا گریہ اور زاری کے ساتھ ہو(۱۰)
۴)فقط اپنے  لیئے دعا نہ کی جائے بلکہ دوسروں کو بھی اپنی دعا میں شامل کیا جائے اور عمومی طور پر دعا کی جائے۔ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلیہ و سلم ) کا ارشادِ گرامی ہے کہ: [قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص)‏ إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعُمَّ فَإِنَّهُ أَوْجَبُ لِلدُّعَاء] ’’جب  تم میں سے کوئی دعا کرے تو عمومیت (سب کو شامل کر کے)کے ساتھ دعا کرے  اور دعا میں اس بات کا لحاظ رکھنا بہتر ہے۔‘‘(۱۱)
 اور بھی بہت سارے آداب ذکر ہوئے ہیں کہ جنکا بیان اس مختصر تحریر میں مناسب نہیں ہے۔

دعا کے لیئے زمان و مکان:
یوں تو دعا مانگنے کا کوئی وقت نہیں ہوتا، جب بھی دل خالق کی یاد سے منور ہو جائے اور بندگی کرنے کا دل چاہے اور چند باتیں غلام اپنے آقا سے کر لے بس یہی دعا ہے۔ لیکن کچھ دن اور رات ایسے بھی ہیں کہ جن میں دعا مانگنے کی تاکید کی گئی ہے اور کچھ خاص دعائیں ایسی بھی ہیں جو خاص ایام  کے لئے سیکھائی  گئی ہیں، زمان کے ساتھ ساتھ مکان کا بھی اثر ہے۔ مثال کے طور پر بارش، اذان یا قرآن کی تلاوت کے وقت (۱۲)جمعرات کو دعا مانگے کی  اور استغفار کی  تاکید کی گئی ہے، روز بعثت دعا کی قبولیت کا دن ہے، ۱۵ شعبان کی رات جو دعا کی جائے فورا قبول ہوتی ہے، شب قدر دعا کرنے  کی خاص رات ہے وغیرہ۔ اسی طرح کچھ دعائیں خاص زمان اور مکان کے لئے ہوتی ہیں، مثلا دعای عرفہ، عرفہ کے دن سے مخصوص ہے، دعای سحر یا دعای افتتاح رمضان میں صبح و شام کے لئے، دعای سمات جمعہ کی شام کے لئے، وغیرہ۔
تو معلوم ہوا کہ دعا مطلقا کہیں بھی اور کبھی بھی کی جا سکتی ہے بس زمان اور مکان کا لحاظ رکھنے سے دعا  کی  قبولیت، اثر اور ثواب زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

ماہ مبارک رمضان دعاؤں کا مہینہ:
بالا مذکورہ باتوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ اللہ  تبارک و تعالیٰ کی یاد میں ڈوبے ہوئے بندے  ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ دعا کے لئے بہترین فرصت کب حاصل ہوگی اور  راز و نیاز کے ایام کب آئیں گے۔
انہیں خاص ایام میں سے ماہ مبارک رمضان ہے کہ جو عبادتوں کا مہینہ ہے، جس میں سانس لینا تسبیح اور سو جانا عبادت ہے۔ اس عظیم مہینہ میں خداوندِ عالم نے بندوں کے لئے اپنی رحمتوں کا دسترخوان بچھا دیا ہے اور  سب کو دعوت دی گئی ہے  کہ آئیں اور خدا کی معنوی نعمتوں سے مستفیض ہوں، اسی لئے مختلف اذکار، دعایئں، نمازیں اور اعمال اس مہینہ میں بیان ہوئے ہیں اور ہر بندہ مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان خاص دنوں کا خیال رکھے کہ ایسے معنوی لمحات ہاتھ سے نہ نکل جائیں اور اپنی روح کا آذوقہ فراہم نہ کر سکے۔
ماہ رمضان سے متعلق اعمال و اذکار کے لئے مختلف کتابیں موجود ہیں، مزید تفصیلات کے لئے شہرہ آفاق کتاب ’’مفاتیح الجنان‘‘ کی طرف رجوع کریں جہاں تفصیل سے یہ باتیں بیان ہوئی ہیں۔
 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونىِ أَسْتَجِبْ لَكمُ‏ْ (غافر ، ۶۰)
(۲)قُلْ ما يعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّى لَوْ لا دُعاؤُكُمْ (فرقان، ۷۷)
(۳)اکتُب لَنا فى هـذِهِ الدُّنیا حَسَنَةً و فِى الأخِرَةِ(اعراف،۱۵۶)،ربنا ءاتِنا فِى الدُّنیا حَسَنَةً و فِى الأخِرَةِ حَسَنَةً و قِنا عَذابَ النّار(بقرہ ۲۰۱)، رَبِّ اجعَلنى مُقیمَ الصَّلوةِ و مِن ذُرِّیَّتى رَبَّنا و تَقَبَّل دُعاء(ابراہیم،۴۰)، رَبِّ هَب لى حُکمـًا و اَلحِقنى بِالصّــلِحین (شعراء،۸۳)،وغیرہ
(۴)صِبْغَةَ اللَّهِ  وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً (بقرہ،۱۳۸)
(۵)قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ: الدُّعَاءُ سِلَاحُ الْمُؤْمِن‏ [الکافی،شیخ کلینی،چاپ دار الحدیث،ج۴،ص۳۰۱]
(۶)الکافی،شیخ کلینی،چاپ دار الحدیث،ج۴،ص۳۰۳،بَابُ أَنَّ الدُّعَاءَ يَرُدُّ الْبَلَاءَ وَ الْقَضَا
(۷)الکافی،شیخ کلینی،چاپ دار الحدیث،ج۴،ص۳۰7،بَابُ أَنَّ الدُّعَاءَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاء
(۸)بحار الانوار ،ج 90 ، ص 313
(۹)الکافی،شیخ کلینی،چاپ دار الحدیث،ج۴،ص334
(۱۰)الکافی،شیخ کلینی،چاپ دار الحدیث،ج۴،ص328
(۱۱)ثواب الاعمال و اعقاب الاعمال،ابن بابویہ،ص۱۶۲
(۱۲)قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: اغْتَنِمُوا الدُّعَاءَ عِنْدَ أَرْبَعٍ: عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ،وَعِنْدَ الْأَذَانِ،وَعِنْدَ نُزُولِ الْغَيْث‏...[ الکافی،شیخ کلینی،چاپ دار الحدیث،ج۴،ص319]

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 41