امام رضا (علیہ السلام) کے نام کا سکہ اور آپ کی ولیعہدی کے علل و اسباب

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: ۵ رمضان کو امام رضا (علیہ السلام) با دلِ نخواستہ مامون کے ولیعہد بنے اور آپ کے نام کا سکہ رائج کیا گیا۔

امام رضا (علیہ السلام) کے نام کا سکہ اور آپ کی ولیعہدی کے علل و اسباب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
 بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں امام موسیٰ الکاظم (علیہ السلام) کی شھادت ۱۸۳ ھجری میں بغداد کے زندان میں ہوئی، اس وقت امام رضا (علیہ السلام) کی عمر مبارک ۳۵ سال تھی اور اس دن سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا۔[1]
مامون کو جب اپنی حکومت خطرہ میں نظر آئی تو اپنی ناپاک سازشوں کے تحت امام علی بن موسیٰ رضا (علیہ السلام) کو  مدینہ منورہ سے خراسان بلوالیا[2] اور یہ ارادہ کیا کہ امام رضا (علیہ السلام) کو اپنا ولیعہد بنائے۔
شیخ صدوق، اپنی کتاب، عیون اخبار رضا میں بیھقی سے نقل کرتے ہیں کہ لوگوں نے ۵ رمضان ۲۰۱ ہجری میں امام رضا (علیہ السلام) کی بیعت کی۔[3] البتہ بیعت اور ولیعہد بنانے کی تاریخ میں مختصر سا فرق ہے۔ چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یکم رمضان ۲۰۱ ہجری بروز پنجشنبہ، جلسہ ولیعہدی منعقد ہوا اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی اور سب سے پہلے مامون کے حکم سے اسکے بیٹے نے بیعت کی، پھر دیگر افراد بیعت سے شرفیاب ہوئے[4] اسی روایت کو شیخ مفید نے بھی مختصر فرق لیکن تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔
طبری نقل کرتے ہیں کہ ’’مامون نے امام (ع) کی ولیعہدی کے اعلان کے بعد آپ کو ’’رضائے آل محمّد(ص)‘‘ کا لقب دیا اور اپنے لشکر کو حکم دیا کہ سیاہ لباس اتار دیں اور سبز لباس پہنیں اور پوری حکومت میں اس خبر کو عام کر دیا جائے۔[5]
امام رضا (علیہ السلام) کے نام کا سکہ:
شیخ مفید اور ابو الفرج اصفھانی لکھتے ہیں: بیعت کے بعد مامون نے حکم دیا کہ آج سے امام رضا (علیہ السلام) کے نام کے سکّے چلائے جایئں اور سکّوں پر رضا (ع) نام کندہ کروایا جائے اور خطبوں میں حضرت کا نامِ نامی داخل کیا جائے۔
چنانچہ درہم و دینار پر حضرت کا نام نقش ہوا اور تمام علاقوں میں وہ سکے چلائے گئے۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت کے نام مبارک کا سکہ عقیدت مندون کے لیئے، تبرّک اور ضمانت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس سکہ کو سفر اور حضر میں حرزِ جان کے لیئے ساتھ رکھنا یقینی امر تھا۔ صاحب جنات الخلود نے بحرو بر کے سفر میں تحفظ کے لیئے آپ کے توسل کا ذکر کیا ہے۔ اسی کی یاد میں بطور ضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی سفر میں بازو پر امام ضامنِ ثامن کا پیسہ باندھتے ہیں۔[6]
مامون کا امام (ع) کو زبردستی ولیعہد بنانا:
مامون نے امام رضا (علیہ السلام) سے کہا کہ میں مسند خلافت کو چھوڑنا چاہتا ہوں اور آپ کو یہ مقام خلافت عطا کرنا چاہتا ہوں۔ امام (علیہ السلام) نے مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس خلافت کو خدا نے تجھے عطا کیا ہے تو تجھے کوئی حق نہیں کہ کسی اور کو دے اور اگر یہ منصب خدا کی طرف سے تجھے نہیں ملا تو یہ غصبی ہے تب بھی کسی کو نہیں دے سکتا[7]۔ چنانچہ جب حضرت نے خلافت قبول کرنے سے انکار کیا تو اس نے ولیعہدی کی پیشکش کی لیکن ظالم اور جابر حکمرانوں کی طرف سے کوئی بھی منصب، خوشی سے قبول کرنا آپ کے خاندانی اصولوں کے خلاف تھا اور اس بار بھی اپنے جد، علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) کی طرح کے منصب کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
مامون نے دوبارہ اصرار کیا اور اس مرتبہ جسارت کے ساتھ دھمکی بھرے لہجے میں کہا [لابد من قبولک]’’آپ کو قبول کرنا ہی پڑے گا‘‘ اور کہا عمر بن خطاب نے خلیفہ کے انتخاب کے لیئے شوریٰ بنائی تھی، جس میں آپ کے جد علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) بھی تھے اور یہ حکم دیا تھا جو اسکی مخالفت کرے، اسکی گردن مار دی جائے۔[8]
امام نے جب اس دھمکی کو سنا تو فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو میری بھی شرط ہے کہ نہ میں امر و نھی کروں گا، اور نہ ہی کوئی فیصلے کروں گا، حکومت میں نہ کسی کو منصوب کروں گا نہ کسی کو عزل کروں گا۔[9]
مامون نے امام (علیہ السلام) کو ولیعہد کیوں بنایا:
 جب حکومت ’دفاع حق اہلبیت(ع)‘ کے جھوٹے نعروں پر مبنی ہو اور سادہ لوح مسلماں اِن جھانسوں مین آجائے تو حقیقت پر سے پردہ اٹھانا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لیئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مامون کا امام کو ولیعدہ بنانے کے پیچھے کیا ارادہ تھا؟ اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے چند وجوہات پیشِ خدمت ہیں:
(پہلی وجہ) علویوں کے حکومت مخالف اقدامات کو روکنا۔
(دوسری وجہ)اہلبیت (علیہم السلام) اور انکے چاہنے والوں کی عزت و احترام کو لوگوں کے درمیان ختم کرنا۔
(تیسری وجہ) دوسرے عرب قبائل کی ہمدردی حاصل کرنا۔
(چوتھی وجہ) حکومت اور اقتدار کی خاطر بنی امیہ کے خلاف جنگ میں بظاہر اہلبیت (علیہم السلام) کی حمایت کرنا۔
(پانچوی وجہ) اہلبیت(علیہم السلام) کے چاہنے والوں کی نظروں میں حکومت کو معتبر بنانا۔
(چھٹی وجہ) اپنے بھائی کے قتل کے بعد لوگوں کے اعتماد کو دوبارہ حاصل کرنا۔
انکے علاوہ اور بھی دیگر وجواہات کی بنا پرمامون نے امام(علیہ السلام) کو حکومت میں شامل کیا اور پہلے خلیفہ بننے کی رائے دی اور بعد میں ولیعہد بنا دیا۔

امام رضا ؑ نے ولیعہدی کیوں قبول کی؟
(پہلی وجہ) اپنی جان کی حفاظت:
 محمد بن عرفہ سے مروی ہے کہ مین نے امام رضا(علیہ السلام) سے سوال کیا کہ کس بنا پر آپ نے مامون کی ولیعہدی کو قبول کیا۔ امام (ع) نے جواب دیا: یہ بتاو کہ کس بنا پر میرے جد نے شوریٰ میں داخل ہونا قبول کیا۔ یعنی امام (ع) یہ فرما رہے ہیں کہ جس طرح میرے جد امیرالمومنین (علیہ السلام) کو خلیفہ دوم نے قتل کی دھمکی دے کر مجبور کر دیا تھا اسی طرح مجھے بھی قتل کی دھمکی دے کر مجبور کر دیا گیا۔[10]
ایک اور روایت میں امام خود اس بات کی وجہ بیان فرماتے ہیں۔
ریان بن صلت کہتے ہیں: میں امام رضا ؑ(علیہ السلام)  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے فرزند رسول(ص): بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے مامون کی ولی عہدی قبول فرمالی ہے جب کہ آپ دنیا کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں فرماتے ہیں ۔فرمایا: خدا گواہ ہے کہ میں نے خوشی سے قبول نہیں کیا ہے ۔ میرے سامنے صرف دو باتیں تھیں یا ولی عہدی قبول کروں یا قتل ہو جاؤں، لہٰذا ولی عہدی قبول کرلی……کیا تم کو یہ نہیں معلوم کہ جناب یوسف خدا کے پیغمبر تھے لیکن جب عزیز مصر کے خزانہ کے خازن (وزیر) بننے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے اس منصب کو قبول فرمالیا۔ اس وقت میں نے بھی ضرورت کے تحت مجبوراً ولی عہدی قبول کرلی۔ میرا ولی عہدی قبول کرنا، قبول نہ کرنے کے برابر ہے (یعنی جو شرائط میں نے رکھے ہیں وہ ایسی ہیں گویا قبول ہی نہیں کیا)[11]
(دوسری وجہ) شیعوں کی جان کی حفاظت:
بنی عباس جیسے ظالم اور سفاک بادشاہ اپنی حکومت کو بچانے کے لیئے کچھ بھی کر سکتے تھے اور اگر ذرا سی بھی کوئی مخالفت کرتا تھا تو اسکا انجام قتل تھا، چاہئے وہ انہی کے خاندان کا ہی کیوں یہ ہو، ایسے وقت میں مامون کو سب سے زیادہ خطرہ علویون سے تھا کہ وہ بغاوت نہ کریں۔ شہید مطہری کے بقول چونکہ علوی کئی بار مامون کے خلاف قیام کر چکے تھے لھذا انکو راضی کرنے کے لیئے اسنے امام کو ولیعہد بنایا[12] ۔
اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اگر ولیعہدی قبول نہ کی تو شیعہ بے گناہ مارے جائیں گے۔
(تیسری وجہ) حکومت کے نجس ارادوں کو مسمار کرنا:
امام (علیہ السلام) کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بجبر و اکراہ ولیعہدی کو قبول کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسی حکمت عملی اپنائی کہ دشمن کے ارادوں کو نقش بر آب کر دیا۔ مثلا
(۱)امام اگر حکومت کے خواہان ہوتے تو مع اہل و عیال خراسان آتے لیکن امام نے اپنے ہمراہ کسی کو نہ لا کر سب پر یہ عیاں کر دیا کہ وہ اس ہجرت سے خوش نہیں ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کام میں انکی جان کو خطرہ ہے۔اس طرح لوگ جان گئے کہ امام پر ظلم کیا جا رہا ہے۔
(۲)امام نے ولیعہدی کو قبول تو کیا لیکن اس کے ذریعہ حکومت کے امور کو قریب سے دیکھتے رہے اور وقتا فوقتا اپنے چاہنے والوں کی مدد کرتے رہے۔
(۳) امام نے ولیعہدی بہت زیادہ اصرار کے بعد اور اکراہ کے ساتھ قبول کی اس شرط کے ساتھ کہ حکومت کے کسی بھی معاملے میں کوئی عمل دخل نہ دیں گے۔ اس طرح لوگوں پر واضح کر دیا کہ ماموں کی حکومت غاصب حق اہلبیت (علیہم السلام) ہے۔
(۴)امام (علیہ السلام) نے مدینہ سے مرو تک کے راستہ میں متعدد مقامات پر قیام کیا اور اپنے چاہنے والون سے ملاقات کی اس طرح سے کہ ہجوم جمع ہو جاتا تھا، حدیث سلسلۃ الذہب اسی کی ایک بہترین مثال ہے اور اس طرح امام (ع) اپنی حقانیت کو بیان کرتے رہے اور غاصب حکومت کے چہرے سے نقاب ہٹاتے رہے۔
(چوتھی وجہ)سیاست اور حکومت کے میدان میں حاضر رہنا:
بے شک ہر امام معصوم حکومتِ الٰھی کو قائم کرنا اپنی ذمہداری سمجھتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ہر ناجائز حاکم، امام وقت کے وجود کو اپنی حکومت کے لیئے خطرہ سمجھتا تھا، چونکہ تمام غاصب حکمران، اسلام کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر حکومت کرتے تھے اور خلیفۃ الرسول ہونے کی آڑ میں شریعت کے شیرازہ کو بکھیر دیا کرتے تھے، اس لئے امام وقت کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ پہلے اسلام کو بچائے، امام علی (علیہ السلام) کی سیرت اس بات کا بہترین نمونہ ہے۔ چنانچہ امام رضا(علیہ السلام) نے خود اس بات کو (بالا مذکور حدیث میں) واضح کیا کہ جس بنا پر آپ (ع) کے جدّ بزرگوار حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) نے شورٰی میں داخل ہونا قبول کیا اسی بنا پر آپ نے ولی عہدی قبول کی، یعنی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر امام علی (علیہ السلام) قبول نہ کرتے اور قتل کر دیئے جاتے تو اسلام کو کون بچاتا اور امام کے انکار سے خانہ جنگی کا بھی خطرہ تھا لھذا امام علی (علیہ السلام) حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی حکمرانون کی مدد کیا کرتے تھے تاکہ اسلام محفوظ رہے۔ اسی طرح امام رضا (علیہ السلام) نے مجبوری کے تحت حکومت کے قریب ّآکر اسلام اور مسلمین کو تباہی سے بچایا اور اس ولایتعہدی کو قبول کرنے کے ذریعہ بتایا کہ حکومت کرنا اور منصب خلافت اصل میٰں خاندان رسول کا حق ہے اور بنی امیہ اور بنی عباس سب غاصب ہیں[13]

اگر تاریخ کا دقیق جایزہ لیا جائے تو اور بھی باتیں سامنے آتیں ہیں جنکو علماء اور مورخین نے بیان کیا ہے لیکن اس سے زیادہ بیان کرنے کی یہاں گنجایش نہیں ہے۔
خداوندِ عالم ہم سب کو حق شناس، حقگو اور حق کا حامی قرار دے۔

..........................................................
حوالہ جات:

[1] منتھی الآمال،شیخ عباس قمی،نشر جمال، ص۳۵۷، بحارالانوار، ج 49، ص 5 ، عیون اخبار الرضا، ج 1، ص 14.
[2] منتھی الآمال،شیخ عباس قمی،نشر جمال، ص۳۹۵
[3] عیون اخبار الرضا ج۲ ص492،مترجم: آقا نجفى اصفهانى، محمد تقى
[4] چودہ ستارے،مولانا نجم الحسن کراروی ص۴۴۷
[5] سیره معصومان ، سید محسن امین، ج 5 
[6] چودہ ستارے،مولانا نجم الحسن کراروی ص۴۴۷
[7] منتھی الآمال،شیخ عباس قمی،نشر جمال، ص۴۰۲
[8] عیون اخبار الرضا ج۲ ص۳۷۸،مترجم: آقا نجفى اصفهانى، محمد تقى
[9] منتھی الآمال،شیخ عباس قمی،نشر جمال، ص۴۰۳
[10] عیون اخبار الرضا ج۲ ص۳۸۰،مترجم: آقا نجفى اصفهانى، محمد تقى
[11] مسند امام رضا، ج۱
[12] سیری در سیره ائمه اطهار، ص 196.
[13] جعفر مرتضی عاملی، ترجمه زندگانی سیاسی امام رضا (ع)، ص 288.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 64