ماہ رمضان، اللہ کی میزبانی کا مہینہ

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: چونکہ ماہ رمضان، اللہ کی میزبانی اور ضیافت کا مہینہ ہے تو اس میزبانی کے تقاضے کیا ہیں، میزبان یعنی اللہ کی طرف سے اس دعوت میں کیا کچھ ملتا ہے اور مہمانوں کی کیا ذمہ داری ہے جن پر وہ عمل پیرا ہوتے ہوئے اس ضیافت سے بہترین فائدہ حاصل کرسکیں۔

ماہ رمضان، اللہ کی میزبانی کا مہینہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جب کوئی مومن بھائی ہماری دعوت کرتا ہے تو ہم اس کی دعوت پر جانے سے پہلے تیاری کرتے ہیں اور جو مہمان بننے کے تقاضے ہیں، ان کا خیال رکھتے ہوئے اپنے آپ کو آمادہ کرتے ہیں۔ واضح ہے کہ میزبان جتنا عظیم شخص ہوگا، مہمان اتنی زیادہ تیاری کے ساتھ آئے گا اور اگر میزبان اللہ تعالی ہو کہ جس کی رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، مہمان کو بھی چاہیے کہ اتنی زیادہ تیاری اور رحمت حاصل کرنے کی امید سے اللہ کی بارگاہ میں پہنچے۔ اس ضیافت، مہمان نوازی اور میزبانی کا وقت ماہ مبارک رمضان ہے۔ اس مہینے میں سب لوگ مہمان ہیں اور اللہ تبارک و تعالی میزبان ہے۔ اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ہمیں میزبان نے خود دعوت دی ہے بلکہ اس دعوت میں آنے کو واجب قرار دیا ہے، یہ سوال پیش آتا ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ میزبانی اور پذیرائی کس طریقے سے ہے اور ہمیں اس ضیافت میں مہمان کیسے بن کر رہنا چاہیے؟

علامہ سید محمد علی جزایری (آل غفور) اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں:
اللہ کی میزبانی سے کیا مراد ہے؟ اس مہینہ میں پذیرائی کس طرح ہے؟ کیا رنگین دسترخوان اور مختلف کھانے ہیں؟ ہرگز نہیں! اللہ کی میزبانی الگ طرح کی ہے، آسمانی دسترخوان ہے، اللہ قرآن کریم کے ذریعے مہمان نوازی کرتا ہے، لیلۃ القدر میں مہمان نوازی کرتا ہے "شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ"[1]، انسان کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس میں موجود ہے (لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌)[2]۔
جب ماہ مبارک اور اس مہینہ سے متعلق دعاوں کی روایات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ خداوند متعال نے اس پرفیض و برکت مہینہ کو بہانہ بنایا ہے تا کہ اپنے بندوں پر لطف و کرم کرے ورنہ سانس لینا جو تکوینی اور غیر ارادی کام ہے، اس کا ثواب سبحان اللہ کہنے کا ثواب ہے اور ہر ایک سبحان اللہ کا ثواب، جنت میں ایک درخت کا سبز ہونا ہے[3]، اور کس طرح نیند، جس پر ہم مجبور ہیں، وہ عبادت اور نماز کا ثواب پالیتی ہے؟[4]

امام خمینی (علیہ الرحمہ) اس میزبانی کے بارے میں فرماتے ہیں:
"آپ لوگ ماہ مبارک میں اللہ کے مہمان ہیں، میزبان اللہ ہے اور مخلوق اس کی مہمان ہے۔ البتہ جو اللہ کے اولیا ہیں، ان کے لئے میزبانی اس طرح نہیں ہے جیسے ہم تصور کرتے ہیں یا ہم وہاں تک پہنچ پائیں۔ ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ یہ میزبانی کیا تھی اور ہم اس سے کس حد تک مستفید ہوئے۔ حالانکہ تمام کائنات اللہ کی زیر رحمت ہے اور جو کچھ ہے اس کی رحمت ہے اور اس کی رحمت ہر چیز تک واسع ہے لیکن میزبانی کا باب ایک الگ باب ہے۔ ضیافت کی دعوت ایک اور باب ہے۔
یہ ساری کی ساری ضیافت، پرہیز ہے، شہوتوں سے پرہیز جیسے کھانے والی چیزیں، پینے والی چیزیں اور دیگر پہلو جو انسان کی شہوتوں کے تقاضے ہیں۔ خدا نے ہمیں دعوت دی ہے کہ تمہیں اس مہمان خانہ میں داخل ہونا چاہیے اور یہ ضیافت، پرہیز کے علاوہ کچھ نہیں، خواہشات سے پرہیز، خودپسندی، خود محوری کو ترک کرنا ہے۔ یہ سب اس مہمان خانہ میں ہیں اور ہمیں یہ غور سے دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم اس مہمان خانہ میں داخل ہوئے یا بالکل داخل نہیں ہوئے۔ ہمیں اس مہمانخانہ میں داخل ہونے کی اجازت ملی یا نہیں، کیا ہم اللہ کی اس ضیافت سے فائدہ مند ہوئے یا نہیں؟ نوجوان متوجہ رہیں کہ انسان جوانی میں اپنی اصلاح کرسکتا ہے۔ انسان کی جتنی عمر بڑھتی ہے، دنیا سے اس کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے، جوان، ملکوت کے زیادہ قریب ہیں۔ بوڑھوں کی عمر جتنی بڑھتی ہے، مسلسل کچھ ایسی چیزیں بڑھتی ہیں جو انہیں اللہ سے دور کرتی ہیں۔ آپ اس بات پر غور کریں کہ اگر آپ اس ضیافت سے صحیح طور پر مستفید ہوکر باہر آگئے تب آپ کی عید ہے، عید اس آدمی کی ہے جو اس ضیافت میں داخل ہو کر باطنی شہوتوں سے کہ جو آدمی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ان سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ اس جہان میں جتنے مفاسد پیش آتے ہیں اس لیے ہیں کہ اس ضیافت میں داخل نہیں ہوئے یا اگر داخل ہوئے تو فائدہ حاصل نہیں کیا۔ ہمیں ظاہری شہوتوں سے پرہیز کرنا چاہیے، … اگر نفسانی خواہش کا ایک ذرہ بھی انسان میں ہو تو اس مہمانی میں داخل نہیں ہوا یا اگر داخل ہوا ہے تو اس نے فائدہ حاصل نہیں کیا۔[5]

غور طلب بات ہے کہ اگر اس ضیافت کو صحیح سمجھنا باعث بنتا ہے کہ اللہ کے مہمان نہ صرف ماہ رمضان کے طویل ہونے سے تھکن محسوس نہیں کرتے، بلکہ ان کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ سارا سال ماہ رمضان ہوتا تاکہ اس مہمان خانہ میں ہمیشہ حاضر رہ کر بہرہ مند ہوتے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: " لو یعلَمُ العبادُ ما فی رمضانَ لودّوا ان یکونَ رمضانُ السّنةَ"[6]، " اگر بندے جانتے کہ رمضان میں کیا (برکات) ہیں تو آرزو کرتے کہ رمضان ایک سال کا ہوتا"۔

حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ رَمَضانَ ، وَالصّائِمونَ فیهِ أضیافُ اللّه ِ وأهلُ کَرامَتِهِ ، مَن دَخَلَ عَلَیهِ شَهرُ رَمَضانَ فَصامَ نَهارَهُ وقامَ وِردا مِن لَیلِهِ وَاجتَنَبَ ما حَرَّمَ اللّه ُ عَلَیهِ ، دَخَلَ الجَنَّهَ بِغَیرِ حِسابٍ .[7]

ماه رمضان ، ماه رمضان! اس میں روزہ دار اللہ کے مہمان اور اللہ کے اہل کرامت ہیں، جس شخص پر ماہ رمضان داخل ہو تو وہ ماہ رمضان کے دن میں روزہ رکھے اور رات کے کچھ وقت میں (عبادت اور نماز کے لئے) کھڑا ہو اور جو کچھ اللہ نے اس پر حرام کیا ہے، اس سے پرہیز کرے تو وہ جنت میں حساب کے بغیر داخل ہوگا۔

سعید بن جبیر کا کہنا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا: اس آدمی کا ثواب کیا ہے جو ماہ رمضان میں روزہ رکھے اور ماہ رمضان کے حق کو پہچانے؟ ابن عباس نے جواب دیا: ابن جبیر، اپنے آپ کو تیار کرلو تا کہ تمہیں ایک جواب دوں جو اب تک تمہارے کانوں نے نہیں سنا اور تمہارے دل پر نہیں اترا … میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آنحضرت فرماتے تھے: " لو عَلمتم مالکم فی رمضانَ لزدتم للّهِ تبارک و تعالی شکرا"[8]، "اگر تم لوگ جانتے کہ رمضان میں تمہارے لئے کیا (فائدے) ہیں تو یقیناً اللہ تبارک و تعالی کا زیادہ شکر کرتے"۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) اس مہینہ کی دیگر مہینوں پر فضیلت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: "پس خداوند نے ماہ رمضان کی دیگر مہینوں پر فضیلت کو اس طریقے سے دکھایا ہے کہ اس مہینہ میں محرمات زیادہ اور واضح و مشہور فضیلتیں مقرر ہوئی ہیں۔ اس وجہ سے، اس مہینہ کی تعظیم کے لئے، جو چیزیں دوسرے مہینوں میں جائز تھیں، ماہ رمضان میں حرام قرار دیں اور اس کی تکریم کے لئے، کھانے اور پینے والی چیزوں کو ممنوع کیا ہے… اور اس مہینہ کی راتوں میں سے ایک رات کی فضیلت کو دیگر ہزار مہینوں کی راتوں کی فضیلت پر ترجیح دی ہے اور اس کا نام "شب قدر" رکھا…"[9]
نتیجہ: اس مہینہ میں مہمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ جس چیزوں سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے، اس سے پرہیز اختیار کی جائے۔ اس مہینہ کی عظمت بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اس مہینہ میں اللہ کی طرف سے کتنی برکات نازل ہوتی ہیں تو وہ آرزو کریں گے کہ ماہ رمضان ایک سال ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سوره بقره، آیه 185۔
[2] سوره قدر، ایه 3۔
[3] علامه مجلسی، بحارالانوار، ج 93، ص 168۔
[4] مصنف کی کتاب اوصاف روزه داران شرح خطبه شعبانیه پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله سے ماخوذ۔
[5] http://seghleakbar.persianblog.ir/post/13/ سے ماخوذ
[6] بحارالانوار، ج 93، ص 346۔
[7] فضایل الاشهر الثلاثه : ص ۱۲۳، ح ۱۳۰ .
[8] بحارالانوار، ج 93، ص 3۵۱۔
[9] محسن غرویان و عبدالجواد ابراهیمی، ترجمه فارسی صحیفه کامله سجّادیه، قم، الهادی، 1376، ص 198 و 199، دعای چهل و پنجم.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66