خلاصہ: شیعہ اور اہل سنت کتب سے حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) کا مختصر تعارف۔
حضرت خدیجه بنت خویلد(سلام اللہ علیھا ) ایک آبرومند شخصیت تھیں، آپ قریش کی ایک شریف ، مالدار اورخوبصورت خاتون تھیں ۔
آپ اس جھالت کے زمانے میں اپنے اخلاق اور فضائل میں ایک نمونہ تھیں اور آپ کو اس دور میں"طاهره" اور "سیده قریش " کے لقب سے نوازہ گیا تھا ۔[1]اور اسی طرح ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ آپ سے رشتہ داری جوڑے۔[2]
پیامبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) آپ کے بارے میں یوں کہتے ہیں: هذه (خدیجة) صدیقة امتی ..یعنی خدیجہ میری امت کی صدیقہ ہیں ۔[3] آپ، پیامبر اسلام سے شادی سے پہلے جزیرہ العرب کی مالدارترین خاتون تھیں اس وقت آپ کے پاس تقریباً ۸۰ ہزار اونٹ تھے اور ان سے آپ طائف، یمن، شام، مصر، حبشہ وغیرہ میں تجارت کرتی تھیں، آپ کے غلام اور کنیزیں بہت زیادہ تھیں، حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے اپنا سب کچھ شادی کے وقت پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو دینے میں فخر سمجھا۔[4]
پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) جب سفر پر جاتے ہیں اور آپکی ملاقات خدیجہ کے غلام میسرہ سے ہوتی ہے اور وہ حضرت خدیجہ کو پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اخلاق اور صفات کے بارے میں بتاتا ہے تو یہ سب سننے کے بعد حضرت خدیجہ کے دل میں محبت رسول آجاتی ہے اور یہی وجہ بنتی ہے کہ خدا نے انہیں، اس زمانے کی خواتین میں سے افضل قرار دیا اور پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے خدیجہ سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔[5] جب حضرت خدیجہ نے پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے شادی کی درخواست کی تو بعض نے اسے یوں قلم بند کیا : «إني قد رغبت فيك لقرابتك منى، و شرفك في قومك، و أمانتك عندهم، و حسن خلقك، و صدق حديثك»[6]
اسی طرح جب حضرت ابو طالب (علیہ السلام ) رشتہ کے سلسلے میں بات کرنے جاتے ہیں تو پہلے خدا کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور پھر اولاد ابراہیم اور اسماعیل کے فضائل بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں : لَهُ فِي خَدِيجَةَ رَغْبَةٌ وَ لَهَا فِيهِ رَغْبَةٌ ’’ وہ خدیجہ کی طرف راغب ہیں اور خدیجہ انکی طرف‘‘ [7]
پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے جب تک حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) زندہ تھیں تو ان کے احترام میں کسی اور خاتون سے شادی نہیں کی ۔[8]
خداوند متعال نے بھی اسی طرح پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا ) سے سلسلہ امامت شروع کیا۔ [9]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1] (میری ،1413ق :325؛ طبری،1383ق ، 2/281؛ابن عبدالبر1412ق: 4/1817؛ بیهقی ،1405ق :2/ 67)
[2] .( طبری،1383ق: 2/281 بیهقی،1405ق: 2/ 67؛ عاملی،1419ق: 1/112)
[3] (ابن کثیر1407ق: 2/62 )
[4] (مجلسی،1403ق:16/22، مطهری،بی تا: 16/181)
[5] (قاضی ابرکوه،1377ش:1/166؛ابن حیون 1409ق:3/19؛ میری ،1413ق : 324؛بکری 1411ق :224؛ابن اثیر،1409ق:1/23)
[6] (ابن اثیر،1409ق:1/23 ابن کثیر1407ق: 2/294؛ طبری،1383ق :2/281؛ بیهقی،1415ق: 2/ 67)
[7] (کلینی ،1407ق:5/374 ابن بابویه،1413ق:3/398؛ابن طاووس،1400ق ؛1/307) .
[8] .(کلینی،1407ق: 5/391؛خصیبی 1419ق: 95؛مسلم ،بی تا :4/1889؛ابن عبدالبر 1412ق: 1/39 ؛ابن اثیر،1409: 3/129 )
[9] (صدوق ، 1376ش: 394).
Add new comment