امام حسن (ع) کی متعدد شادیاں، افسانہ یا حقیقت؟

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: امام حسن علیہ السلام پر یہ بہتان لگایا جاتا ہے کہ آپ نے تقریبا300 شادیاں کی ہیں اور کثرت کے ساتھ طلاق بھی دیا ہے، مقالہ ھذا میں اس بہتان سے متعلق احادیث کو ذکر کیا گیا ہے اور آخر میں ان کا جواب دیتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ حقیقت میں یہ ایک افسانہ اور بہتان ہے جو اہل بیت کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے۔

امام حسن (ع) کی متعدد شادیاں، افسانہ یا حقیقت؟

امام حسن مجتبیٰ(علیہ السلام) کچھ خاص خصوصیات کے مالک ہیں منجملہ ایک تو آپ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بڑے نواسے، امیر المومنین(علیہ السلام) اور فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا) کے بڑے بیٹے ہیں۔ دوسرے یہ کہ آپ کی شخصیت کے بارے میں رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی متعدد حدیثیں موجود ہیں۔ لہذا مسلمان دو وجوہات کی بنا پر اس گھرانے کو محبوب رکھتے ہیں ایک اس اعتبار سے یہ گھرانہ یادگار پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہے چونکہ اس گھرانے کے علاوہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی کوئی اولاد باقی نہیں بچی تھی اور امامین حسنین(ع) پیغمبر(ص) کے نواسے ہونے کی وجہ سے تنہا رسول کی نشانیاں تھے اور دوسری وجہ وہی پیغمبر اسلام کی احادیث ہیں جن میں ان کے بارے میں اتنی تاکید ہوئی ہے۔
اس محبوبیت کے باوجود عوام الناس کے اندر آپ کے سلسلے میں کچھ شبہے پائے جاتے ہیں مثال کے طور پر یہ کہ امام حسن (علیہ السلام) کی ۳۰۰ بیویاں تھیں۔امام حسن (علیہ السلام) کی متعدد بیویوں کا شبہہ بہت معروف اور پرانا شبہہ ہے اور کافی حد تک اس کا جواب دیا جا چکا ہے۔
مقالہ ھذا کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف زیادہ طلاق دینے والی روایات اور اسکے جوابات ذکر کرتے ہوئے نتیجہ کی طرف اشارہ کیاجائے گا۔
وہ روایات جو امام حسن (علیہ السلام) کے طلاق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
الف: امام علی (علیہ السلام) سے ایک شخص، امامین حسنین علیھما السلام، عبداللہ اور جعفر سے رشتہ کرنے کے بارے میں مشورہ کررہا تھا، امام علی (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا حسن بہت طلاق دیتے ہیں لہذا اپنی بیٹی کی شادی حسین سے کرو یہ تمہاری بیٹی کے لئے بہتر ہے۔ [1]
ب: امام صادق(علیہ السلام): امام حسن نے جب ۵۰ عورتوں کو طلاق دیدی تو امام علی (علیہ السلام) نے کوفہ میں اعلان فرمایا: اے کوفیو! حسن کو اپنی بیٹی مت دو اس لئے کہ وہ بہت طلاق دیتے ہیں، اتنے میں ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا ہم ضرور دیں گے یہ ہمارے شرف کی بات ہے اس لئے کہ وہ فرزند رسول ہے اب چاہے وہ جسے رکھیں اور چاہے جسے طلاق دیں۔[2]
ج: امام باقر(علیہ السلام): علی (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ کوفیوں کو مخاطب کیا اور فرمایا حسن کو اپنی بیٹیاں مت دو اس لئے کہ وہ بہت طلاق دیتے ہیں۔[3]
بعض اہل سنت کی کتابوں میں بھی راویوں اور الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ اس طرح کی روایات ملتی ہیں جسیے: انساب الاشراف،[4] قوت ‏القلوب،[5] شرح نهج‏ البلاغه ابن ‏ابی‌الحدید معتزلی[6] وغیرہ۔
جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے لہذا ہم آپ کی خدمت میں وہ دلیلیں پیش کرنے کا شرف حاصل کریں گے جو امام حسن کی ۳۰۰ بیویاں کے رد میں ہیں:
1۔امام حسن (علیہ السلام) ۱۵ رمضان سن ۳ہجری کو پیدا ہوئے اور بنابر قول مشہور ۲۸صفر سن ۵۰ ہجری کو شہید ہوئے اگر آپ کی پہلی شادی ۲۰سال میں واقع ہوئی تو آپ کے والد کی شہادت تک یعنی ۴۰ہجری، ۱۷سال کے فاصلہ میں بقیہ شادیاں اور طلاق واقع ہونے چاہئیں۔ جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ انھیں ۱۷سال کے فاصلہ میں ۵ سال تک آپ کے والد امام علی (علیہ السلام)کے زمانے میں پے در پے جنگ (جمل، صفین اور نھروان) ہوئی، اسکے علاوہ اگر آپ کے زاہدانہ پہلو کو نظر میں رکھا جائے تو ۲۰حج پیدل انجام دیئے تو کیسے ممکن ہے تاریخ کے ان مسلمات کو نظر اندار کر کے مندرجہ بالا روایات کو قبول کیاجائے؟
2۔اس طرح کی اکثر روایتیں، امام صادق (علیہ السلام)سے مروی ہے جب کہ امام صادق (علیہ السلام) کا دور امام حسن(علیہ السلام) سے ایک صدی کے بعد تھا، پھر اس طرح روایات بیان کرنے کا کیا ہدف تھا؟ اسمیں ضرور دشمن منصور دوانیقی  کی سازش تھی کہ امام صادق(علیہ السلام) کے نام پر حدیث گڑھ کر امام حسن(علیہ السلام) کی شخصیت کو پامال کرتے ہوئے امام صادق(علیہ السلام) کی شخصیت کو مجروح کیا جائے اور اپنی حیثیت کو بڑھایا جائے۔[7]
3۔ اگر حقیقت میں یہ واقع ہوا ہوتا تو آپ کے سخت دشمن جو بات بات میں آپ  پر اعتراض کیا کرتے تھے، اس بات کو آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے ضرور اٹھاتے جب کہ تاریخ میں آپ کے زمانے میں آپ پر کئے گئے اعتراضات میں اس طرح کا کوئی اعتراض نہیں ملتا۔
4۔بیویوں اور فرزندوں کی تعداد جو تاریخ میں بیان کی ہے وہ اس طرح (300بیویوں)کی تعداد سے میل نہیں کھاتی، تاریخ میں فرزندوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ 22 اور کم سے کم 12 بیان کی گئی ہے اور بیویوں کی تعداد 13 قلم بند کی گئی ہے، جس میں 5 سے زیادہ کے شرح حال کو بیان نہیں کیا گیا ہے۔[8]
5۔ اسکے علاوہ وہ احادیث جو طلاق کی مغضوبیت پر دلالت کرتی ہیں جو شیعہ اور اہل سنت دونوں کی کتاب میں ذکر ہوئی ہیں جیسے:
الف: رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ہیں: خدا کے نزدیک منفورترین حلال، طلاق ہے۔[9]
ب: امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: شادی کرو اور طلاق نہ دو اس لئے کہ طلاق  کے ذریعہ عرش الہی کانپ جاتا ہے۔[10]
ج: اسی طرح سے امام صادق(علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ خدا اس شخص کو دشمن رکھتا ہے جو زیادہ طلاق دے اور مختلف ذائقہ کا در پے رہتا ہے۔[11]
مندرجہ بالا روایات ہونے کے باوجود کیسے ممکن ہے کہ ایک امام معصوم جو امت کی ہدایت کے لئے آیا ہو اور ایسے عمل (طلاق) جائز قبیح کو پے در پے انجام دیتا ہو اور حد یہ ہے کہ اتنی کثرت کے باوجود ان کے والد بھی منع نہ کریں۔
اس کے علاوہ اور بھی دلیلیں ہیں مگر مقالہ کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
چنانچہ مندرجہ بالا احادیث اور دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے یہ فقط ایک اتہام اور کذب عظیم ہے ذات مقدس امام حسن (علیہ السلام) پر بنی امیہ اور دشمنان اہلبیت کی طرف سے اور اسکا باطل ہونا اظہر میں الشمس ہے۔ یہ ذوات مقدسہ علیہم السلام 'صاحبان تطہیر' ہیں اور 'صاحب عصمت و ولایت ' ہیں۔ انکی ذوات ہر طرح کے عیب و نقص و برائی سے پاک و منزہ ہے اور قرآن کی آیات و احادیث صحیحہ شیعہ و سنی دونوں کی کتب تفسیر و کتب احادیث میں کثرت سے پائی جاتی ہوں جنکا انکار ممکن ہی نہیں اور نہ انسے فرار تو پھر انکی شان عظیم میں ایسی باتیں فقط نواصب اور بغض و عناد رکھنے والے ہی کر سکتیں ہیں مگر الله اپنے 'نور' کی حفاظت فرماتا ہے اور جھوٹوں اور فریب کاروں کا پردہ فاش کرتا ہے اور انکے مکر کا توڑ کرتا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات
[1]  برقى، احمد بن محمد، المحاسن، ج 2، ص 601، قم، دار الکتب الإسلامیة، چاپ دوم‏، 1371ق‏.
[2] کلینى، محمد بن یعقوب‏، الکافی، ج 6، ص 56، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم‏، 1407ق‏.
[3] ابن حیون مغربى، نعمان بن محمد‏، دعائم الاسلام، ج 2، ص 258، قم، مؤسسة آل البیت(ع)‏، چاپ دوم‏، 1385ق‏.
[4] بلاذرى‏، أحمد بن یحیى، انساب الاشراف، ج 3، ص 25، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ق.
[5] ابو طالب مکى، محمد بن على‏، قوت ‏القلوب، ج 2، ص 412، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول‏.
[6] ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن هبة الله‏، شرح نهج ‏البلاغه، ج 16، ص 12 – 13، قم، مکتبة آیة الله المرعشی النجفی‏، چاپ اول‏، 1404ق‏.
[7] مسعودی‏، على بن حسین، مروج الذهب، ج 3، ص 300، قم، دار الهجرة، چاپ دوم، 1409ق.
[8] قرشى‏، باقر شریف، حیاة الإمام الحسن بن على(ع)، ج 2، ص 455 – 460 و 461 ـ 469، بیروت، دار البلاغة، چاپ اوّل‏، 1413ق‏.
[9] سجستانی، أبو داود سلیمان بن أشعث، سنن ابی داود، ج 3، ص 504، بی‌جا، دار الرسالة العالمیة، چاپ اول، 1430ق.
[10] طبرسى، حسن بن فضل‏، مکارم ‏الاخلاق، ص 197، قم، الشریف الرضى‏، چاپ چهارم‏، 1412ق‏؛ شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعة، ج ‏22، ص 9، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ق.
[11] وسائل الشیعة، ج ‏22، ص 8.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 58