خلاصہ:امام حسن (علیہ السلام) کے فضائل کی ایک جھلک۔
مؤرخین نے امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کے جو فضائل ذکر کئے ہیں، ہم ان میں سے بعض کو یہاں پر ذکر کریں گے ۔جن کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے:
1.امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کا نام رکھنے کا موقع
جابر بن عبدالله کہتے ہیں: جب امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تو حضرت زہراء (علیھا السلام) نے امیر المؤمنین علی (علیہ السلام) سے کہا کہ ان کا نام رکھیں تو مولائے کائنات نے فرمایا: اس کانام رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) رکھیں گے، میں اس بچے کا نام رکھنے میں ان سے سبقت نہیں کروں گا تو سیدہ نے اس بچے کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی خدمت میں پیش کیا اور فرمایا: یا رسول اللہ اس کا نام انتخاب کریں، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے فرمایا: میں کیسے خداوند متعال پر سبقت کر سکتا ہوں، پس اسی وقت جبریل کو بھیجا اور کہا کہ جاؤ محمد کو میری طرف سے مبارکباد دو اور کہو کہ علی تمہارے نزدیک ہارون کی طرح ہیں، پس جو نام ہارون کے بیٹے کا تھا وہی رکھو، جب جبریل نے آکر مبارکباد دی اور خداوند متعال کا پیغام سنایا تو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے فرمایا: ہارون کے بیٹے کا نام کیا تھا ؟
تو جبریل نے کہا: شبر، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے فرمایا: ہماری زبان تو عربی ہے؟ تو جبریل نے کہا: عربی میں اس کا نام حسن رکھو، اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے اس فرزند کا نام حسن رکھا۔[1]
2. جوانان جنت کے سردار
جابر روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے فرمایا: جو بھی جوانان جنت کی زیارت کرنا چاہتا ہے وہ میرے بیٹے حسن بن علی(علیھما السلام) کی زیارت کرے۔ [2]
3. ہیبت امام حسن (علیہ السلام)
ابن علی رافع اپنے والد سے اور وہ اپنی جدہ، زینب سے نقل کرتی ہیں :فاطمہ (علیھاالسلام) اپنے دو بیٹوں کے ساتھ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں گئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: میری ہیبت کا وارث میرا بیٹا حسن ہے اور میری بخشش اور شجاعت کا وارث میرا بیٹا حسین ہے۔
اس روایت کی تائید کے لیے محمد بن اسحاق کی روایت کو نقل کرتے ہیں کہ حسن بن علی (علیھما السلام ) کی طرح کوئی بھی شرافت میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نہیں گیا، ہم نے مکہ کے راستہ میں دیکھا کہ امام اپنی سواری سے نیچے اترے اور پیدل چلنا شروع کر دیا جب ساتھیوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کیا یہاں تک کہ سعد بن ابی وقاص بھی پیدل چل رہا تھا۔ [3]
4. امام مجتبی (علیہ السلام) رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شبیہ تھے
انس بن مالک کا کہنا ہے کہ امام مجتبی (علیہ السلام) کی طرح کوئی بھی شباہت میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نہیں ملتا تھا۔[4]
5. رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا امام مجتبی (علیہ السلام) سے اظہار محبت
صحیح مسلم میں روایت ہے : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: مجھے حسن سے محبت ہے، خدایا تم بھی اسے اور اس شخص کو کہ جو حسن سے محبت کرے، محبت کر۔ [5]
ایک اور روایت میںآیا ہے کہ براء بن عازب کہتا ہے کہ میں نے دیکھا حسن، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کندھوں پر سوار تھے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرما رہے تھے، خدا میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ [6]
6. زہد اورعبادت امام حسن (علیہ السلام)
کتاب امالی میں ذکر ہے: امام حسن (علیہ السلام)، عابدترین، زاہدترین اور اپنے زمانے کے با فضیلتترین انسان تھے، جب حج کا زمانہ آتا تو آپ کبھی پیدل حج پر جاتے اور کبھی پا برہنہ حج کیا کرتے تھے، جب بھی موت، قبر، قیامت کا ذکر آتا تو آپ کی آنکھیں آنسؤں سے تر ہو جاتیں۔[7]
7. راه خدا میں بخشش
امام حسن (علیہ السلام) جود و بخشش میں مشہور و معروف تھے، اس بارے میں روایات بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں، علامه مجلسی، کتاب بحار الانوار میں، حلیة الاولیاء سے نقل کرتے ہیں: امام حسن (علیہ السلام) نے دو مرتبہ اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں تقسیم کر دیا۔ [8]
8. فقراء سے تواضع سے پیش آنا
ابن شهر آشوب کتاب الفنون میں احمد مؤدب اور کتاب نزهة الابصار میں ابن مهدی سے نقل کرتے ہیں: امام حسن (علیہ السلام) ایک جگہ سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ کچھ فقیر زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پاس کچھ خشک روٹی کے ٹکڑے ہیں، جنہیں وہ کھا رہے ہیں، انہوں نے آپ کو دعوت دی تو آپ بھی ان کے ساتھ وہ کھانے بیٹھ گئے پھر امام نے ان کو اپنے گھر دعوت دی اور انہیں اچھا کھانا کھلایا۔ [9]
قرآن میں اس طرح کے فضائل بہت بیان ہوئے ہیں کہ ہم امام حسن (علیہ السلام) کو ان فضائل کا واضح مصداق قرار دیں سکتے ہیں۔ [10] جیسے وہ آیت، جس میں اہل بیت (علیھم السلام) کے بارے میں خدا نے کہا ہے کہ ہم نے رجس کو ان سے دور رکھا ہے اور یہ پاک اور منزہ ہیں۔ [11] آپ کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) مباہلہ کے لیے گئے تو جن ہستیوں کو لے کر گئے ان میں امام حسن (علیہ السلام) بھی موجود تھے۔ [12]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1] إعلام الوری، ج 1، ص 211- 212.
[2] إعلام الوری، ج 1، ص 211.
[3] إعلام الوری، ج1 ، ص 212.
[4] بحارالأنوار، ج 43، ص 338
[5] بحارالأنوار، ج 37، ص 74.
[6] بحارالأنوار، ج 37، ص 74.
[7] امالی، شیخ صدوق، ص 179.
[8] بحارالأنوار، ج 43، ص 340.
[9] ابن شهر آشوب، المناقب، ج 4، ص 24.
[10] فضائل الخمسة من الصحاح الستة، فیروز آبادی.
[11] تفسیر آیۀ تطهیر در تفاسیر المیزان، نمونه و...
[12] تفسیر آیۀ تطهیر ؛ و کتاب های پیرامون مباهله.
Add new comment