خلاصہ:19 ماہ مبارک کو امیر کائناتؑ کو دنیا کے شقی ترین انسان نے شھید کردیا۔
خوارج میں سے تین لوگوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) ،معاویہ ،عمروعاص کو ۱۹ رمضان المبارک کی رات کو قتل کیا جائے ۔
معاویہ کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ جب وہ سجدہ میں گیا تو بجلی چمکی کہ جس کی وجہ سے اسکے سپاہی متوجہ ہوئے اور قاتل، قتل کرنے میں ناکام ہو گیا۔ [1]
عمرو بن بکیر (بکر) کہ جو عمر عاص کو قتل کرنے گیا تھا تو اس رات عمر عاص کے پیٹ میں درد تھا اور اسکی جگہ خارجہ بن حذاقہ نماز پڑھانے گیا تھا تو اس نے اس گمان میں کہ یہ عمر عاص ہے اسے قتل کر دیا ۔ [2]
جہاں تک بات ہے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کو ضربت لگنے کی اس میں چند احتمال دئے گئے ہیں :
1. امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کو مسجد میں ضربت لگی اور وہ بھی نماز کی حالت میں، جو لوگ اس احتمال کے قائل ہیں وہ اس روایت کا سہارا لیتے ہیں:
امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: جب ابن ملجم، امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام)کو قتل کرنے آیا تو اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا، جب اس نے ضربت لگائی تو اس کی ضرب خطا کر گئ اور ابن ملجم نے سجدہ کی حالت میں ضرب لگائی اور مولا کا سر شگافتہ ہو گیا اتنے میں امام حسن اور امام حسین (علیھما السلام) آئے اور اسے گرفتار کر لیا۔ [3]
2۔کنزالعمال باب فضائل امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) میں لکھا ہے کہ جب امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) رکوع سے سجدے میں جا رہے تھے تو ابن ملجم نے ضرب لگائی تو امام ایک طرف ہوگئے اور کہا کہ تم اپنی نماز کو مکمل کرو۔[4]
تاریخ دمشق میں شرح حال امام علی(علیہ السلام) میں لکھا ہےکہ عبدالرحمن ابن ملجم نے نماز صبح کے دوران زہر بھری تلوار سے ضرب لگائی۔[5]
عبدالرحمن ابن ملجم نے جب ضرب لگائی تو اس وقت وہ خوف کی حالت میں تھا۔ [6]
3۔ابن ابی الدنیا نے مقتل امیرالمؤمنین (علیہ السلام)میں لکھا ہے کہ علی (علیہ السلام) نے نماز کی تکبیرۃ الاحرام کہی اور پھر گیارہ آیتیں سورہ انبیاء کی قرائت کیں، اتنے میں ابن ملجم نے ضرب ماری۔[7]
اور اسی طرح لکھاہے کہ جب ابن ملجم نے ضرب لگائی تو علی (علیہ السلام) نماز میں تھے ۔[8]
4۔ ہمارے پاس کوئی بھی ایسی روایت نہیں ہے کہ جو صراحتا محراب میں شھادت علی (علیہ السلام) کی نفی کرے۔
5۔ یہ بات واضح ہے کہ وہ تین لوگ کہ جو شقیترین انسان تھے انہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ نماز کی حالت میں ہی شھید کیا جائے اور یہ جانتے تھے کہ بالخصوص حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ نماز کے دوران کوئی محافظ نہیں ہوتا۔
6۔ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) شجاعت میں معروف تھے اور یہ بات ابن ملجم کو بھی معلوم تھی اسی لیے اس نے نماز کا وقت اپنے لیے غنیمت جانا یا یہ کہیں کہ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ [9]
شیخ طوسی روایت نقل کرتے ہیں کہ جب امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام)کو ضربت لگی تو امام حسن اور امام حسین (علیھما السلام) وہاں موجود تھے اور امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے اور نماز کے بعد انہوں نے ابن ملجم کو گرفتار کر لیا۔ [10]
نتیجہ
یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام)کو جو ضرب لگی وہ مسجد کوفہ کی محراب میں، نماز کی حالت میں لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1] انسابالأشراف،ج2،ص490(چاپزکار،ج3،ص:251).
[2] انسابالأشراف،ج2، ص491.
[3] الطوسی، امالی، الجزء الثالث، الحدیث (18)
[4] کنز العمال: ج 15/ 170، ط 2، حدیث: (497)
[5] ابن عساکر، تاریخ دمشق، ترجمة امیر المؤمنین، حدیث (1397)
[6] لأحمد بن حنبل، کتاب الفضائل فضائل امیر المؤمنین، حدیث 63
[7] بر گرفته ار حاشیه انساب الاشراف ، ج2، ص 492،(چاپزکار،ج3،ص:254).
[8] . بر گرفته ار حاشیه انساب الاشراف ، ج2، ، ص 492 .
[9] . واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازى، تحقیق: مارسدن جونس، ج1،ص 285، بیروت، مؤسسة الأعلمى، چاپ سوم، 1409ق.
[10] .شیخ طوسی، الأمالی، ص 365.
Add new comment