خلاصہ: شب قدر وہ شب ہے جسمیں قرآن کریم کو نازل کیا گیا، اس شب کی بہت اہمیت ہے۔ مقالہ ھذا میں اس شب کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی ذمہداریوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس دعا کے ساتھ کہ خدا ہمیں واقعی شب قدر کا ادراک کرنے والوں میں شمار فرمائے۔
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ گزر گیا جو رحمت کا عشرہ تھا، دوسرہ عشرہ بھی گزرنے کو ہے، جو مغفرت کا عشرہ ہے، اور اب تیسرے عشرے کی آمد آمد ہے، جو جہنم سے آزادی کا عشرہ بتایا گیا ہے، بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے ان مبارک ایام کے ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھایا اور بڑے بد قسمت ہیں وہ لوگ جو خواب خرگوش میں رہے لیکن اگر صبح کا کھویا ہوا شام کو گھر لوٹ آئے تو اُسے کھویا ہوا نہیں کہتے لہذا جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے، غفلت وبے خبری کی نیند میں مست رہے ہیں وہ ہوش میں آجائیں، توبہ واستغفار کریں، اور اعمال صالحہ کے لیے کمر کس لیں، کیوں کہ رمضان المبارک کا یہ آخری عشرہ نہایت عظیم الشان اور اہم ہے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ شَدَّ الْمِئْزَرَ وَ اجْتَنَبَ النِّسَاءَ وَ أَحْيَا اللَّيْلَ وَ تَفَرَّغَ لِلْعِبَادَ"[1]۔ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب رمضان کے آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو عبادت وریاضت کے لیے اپنی کمر مضبوط کرلیتے، اپنی بیویوں کے قریب نہ جاتے اور پوری رات شب بیداری کرتے ہوئے عبادت خداوندی میں مصروف رہتے۔
آخر کیوں رمضان کی آخری راتوں کو یہ اہتمام ملتا ہے؟ اس لیے کہ اسی عشرے کے طاق راتوں کی ایک رات شب قدر ہوتی ہے جس کی عبادت وریاضت ہزار مہینے یعنی 83 سال چار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے۔ اسی رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا، اس رات میں فرشتے اور روح الأمین نازل ہوتے ہیں۔ اور اس رات میں پورے سال واقع ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اس کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:"مَنْ اَحْیا لَیْلَةَ الْقَدْرِ حُوِّلَ عَنْهُ الْعَذابُ اِلَى السَّنَةِ الْقابِلَةِ"[2]۔جو شخص بھی شب قدر میں بیدار رہ کر عبادت خداوندی بجالاتا ہے تو اس سےآئندہ ایک سال تک عذاب خدا دور کردیا جاتا ہے۔
مولائے کائنات علی ابن ابی طالب(علیھما السلام) بھی اس کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے منسوب حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:"مَنْ أَحْيَا لَيْلَةَ الْقَدْرِ غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ وَ لَوْ كَانَتْ عَدَدَ نُجُومِ السَّمَاءِ وَ مَثَاقِيلَ الْجِبَالِ وَ مَكَايِيلَ الْبِحَارِ"[3]۔ جو شخص بھی شب قدر میں بیدار رہ کر عبادت خداوندی بجالاتا ہے تو خداوند غفار اسکے تمام گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے اگر چہ اس کے گناہ ستاروں سے زیادہ ہوں یا پہاڑ سے زیادہ سنگین ہو یا سمندروں کی گہرائیوں سے زیادہ عمیق ہو۔
جناب سیدہ(سلام اللہ علیھا) کا شب قدر میں اس قدر اہتمام ہوتا تھا کہ حضرت علی (علیہ السلام)فرماتے ہیں:"وَ کانَتْ فاطِمَةُ علیهاالسلام لا تَدَعُ اَحَدا مِنْ اَهْلِها یَنامُ تِلْکَ اللَّیْلَةَ وَ تُداویهِمْ بِقِلَّةِ الطَّعامِ وَ تَتَأَهَّبُ لَها مِنَ النَّهارِ وَ تَقُولُ مَحْرُومٌ مَنْ حُرِمَ خَیْرَها"[4]۔جناب فاطمہ(سلام اللہ علیھا) کا شب قدر میں معمول تھا کہ آپ اپنے اہل خانہ میں کسی کو اس مبارک شب میں سونے نہیں دیتی تھیں، اس کے لئے رات میں کھانا کم دیتیں اور دن میں آرام کرواتیں، آپ ہمیشہ فرماتی تھیں، دنیا کا سب سے محروم ہے وہ شخص جو اس رات کی عبادتوں سے محروم رہے۔
امت محمدیہ ﷺ کو اور امتوں پر جہاں بہت سی چیزوں کے ذریعہ فضیلت دی گئی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس امت کو شب قدر جیسی عظیم رات عطا کی گئی۔ قدر کی رات، اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے جس سے اس امت کو سرفراز فرمایا گیا ہے۔ اس رات کی فضیلت کا اندازہ لگانے کیلئے یہی ایک بات کافی ہے کہ قرآن مجید میں اس رات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ایک مستقل سورہ نازل کیا گیا۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک ہی موضوع پر پورا سورہ نازل کیا گیا ہو۔ یہ شب قدر کی خصوصیت ہے کہ اس کی شان میں پورا سورہ نازل کیا گیا۔
سورہ قدر کے شان نزول سے بھی شب قدر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اس سورہ کے شان نزول کے بارے میں حضرات مفسرین نے مختلف روایات نقل فرمائی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال ذکر کیا جو ایک ہزار مہینہ تک مسلسل مشغول جہادر رہا اور کبھی ہتھیار نہیں اتارا۔ مسلمانوں کو یہ سن کر تعجب ہوا اور اصحاب نے رسول سے اس شرف کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا، کاش یہ شرف ہم کو بھی مل جاتا، چنانچہ یہ سورہ نازل ہوا جس میں اس امت کیلئے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا۔[5]
اسکے علاوہ ایک روایت اور بھی نقل ہوئی ہے وہ یہ کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد کا حال یہ تھا کہ ساری رات عبادت میں مشغول رہتا اور صبح ہوتے ہی جہاد کیلئے نکل کھڑا ہوتا اور دن بھر جہاد میں مشغول رہتا۔ اس نے ایک ہزار مہینے اسی طرح عبادت میں گذاردیئے۔ اس پراصحاب نے رسول اسلام سے اس طرح کے شرف کی خواہش ظاہر کی چنانچہ اللہ نے سورہ قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت فرمادی [6]۔
لیکن افسوس ! جب ہم اس تعلق سے مسلمان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اکثر لوگ اس رات کی اہمیت سے بالکل بے خبر ہیں، عام راتوں کی طرح ان راتوں کو بھی گزار دیتے ہیں، طرفہ تماشہ یہ کہ کچھ لوگ ان مبارک راتوں میں اللہ کی نافرمانی اور کفر وعصیان کے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔
کچھ لوگ ان راتوں میں جاگتے بھی ہیں تو ان کا جاگنا بطور فیشن ہوتا ہے، مساجد میں روشنی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے لیکن دل کا چراغ بجھا ہوتا ہے، لوگوں کا ہجوم، گرم گرم چائے، مٹھائیوں کا دور، لاؤڈ اسپیکر پر مجلس، نوحے اورقصیدے کے پروگرام ضرور ہوتے ہیں لیکن دل لذت آشنائی و معرفت سے خالی ہوتا ہے۔ بے شک مجالس و محافل اور نوحے خوانی اپنی جگہ ہونا بہت ہی ضروری ہے مگر ان میں مصروف ہو کر بھی معرفت اور شعور کو حاصل نہ کرنا اور دوسری عبادتوں کو بھول جانا کہیں کی عقلمندی نہیں ہے۔
محترم قارئین! ضرورت ہے کہ ہم شب قدر کی عظمت ورفعت کو دل کی گہرائی سے جانیں، اس رات کی عبادت ہزار مہینے یعنی 83سال چار مہینے کی عبادت سے بہتر ہے، اس اہم نکتے کو اپنے دل و دماغ میں بٹھائیں اور آج ہی سے کمرکس لیں کہ عشرہ اواخر اور بالخصوص اس کی طاق راتوں23/21/19 میں سستی وتساہلی کو بالکل قریب نہ ہونے دیں گے، اس تعلق سے اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] الكافي،ج4، ص155،باب ما يزاد من الصلاة في شهر رمضان، محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى رازى،انتشارات دار الكتب الإسلامية، تهران، چاپ چهارم، 1365 هجرى شمسی۔
[2] مستدركالوسائل، ج7، ص456، باب استحباب الجد و الاجتهاد، ميرزا حسين نورى، انتشارات مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم، چاپ اول، 1408 هجری۔
[3] وسائلالشيعة، ج8، ص21، باب استحباب صلاة مائة ركعة ليلة، محمد بن حسن بن على بن محمد بن حسين، معروف به شيخ حر عاملی، انتشارات مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم، چاپ اول، 1409 هجری۔
[4] مستدركالوسائل، ج7، ص470، باب تعيين ليلة القدر، ميرزا حسين نورى، انتشارات مؤسسه آل البيت لإحياء التراث، قم، چاپ اول، 1408 هجری۔
[5] تفسیر نمونہ، ج27، ص183، مكارم شيرازى ناصر ، انتشارات دار الكتب الإسلامية ، تهران، چاپ اول1374 ش۔
[6] تفسیر نمونہ، ج72، ص183، مكارم شيرازى ناصر ، انتشارات دار الكتب الإسلامية ، تهران، چاپ اول1374 ش۔
Add new comment