شہادت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی پشینگوئی

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: شہادت، اسلام کی نظر میں بہت بلند مقام ہے جو ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتا بلکہ خاص افراد مقام شہادت پر فائز ہوتے ہیں، امیرالمومنین علیہ السلام جہاد پر تشریف لے جاتے تو شہادت کی امید سے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو مختلف موقعوں پر شہادت کی خبر دی تھی جس کے سننے پر آپ اپنے دین کی سلامتی کا پوچھتے اور خبر شہادت پر خوشی کا اظہار کیا۔

شہادت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی پشینگوئی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شہادت، ایسا قیمتی گوہر ہے جس کو خریدنا ہر شخص کی طاقت نہیں ہے اور شہد شہادت کی مٹھاس ہر کسی کو نہیں چکھائی جاتی، حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) وہ مقدس ذات ہیں جو شہادت کی تلاش میں جہاد فی سبیل اللہ کرتے رہے اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے مختلف مواقع پر امیرالمومنین (علیہ السلام) کو آپؑ کی شہادت کی خبر دی جس کے سننے پر آپ اپنے دین کی سلامتی کے بارے میں پوچھتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین کی سلامتی کی خبر دیتے اور امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خبر شہادت پر خوشی کا اظہار کیا۔ مندرجہ ذیل وہ مواقع ہیں جن میں آنحضرتؐ نے اس خبر کی پشینگوئی کی تھی:
جب رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) خطبہ شعبانیہ جو ماہ رمضان کے سلسلے میں ہے، ارشاد فرما رہے تھے تو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں اٹھا اور عرض کیا: یا رسول اللہؐ! اس مہینہ(ماہ رمضان) کا بہترین عمل کیا ہے؟ تو آنحضرتؐ نے فرمایا: « يَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِي هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ » اے ابالحسن! اس مہینہ کا بہترین عمل، اللہ عزّوجلّ کے حرام کیے ہوئے کاموں سے بچنا ہے، پھر آپؐ رونے لگے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ!  کس بات نے آپؐ کو رولایا ہے؟  آپؐ نے فرمایا: « يَا عَلِيُّ أَبْكِي لِمَا يُسْتَحَلُّ مِنْكَ فِي هَذَا الشَّهْرِ كَأَنِّي بِكَ وَ أَنْتَ تُصَلِّي لِرَبِّكَ وَ قَدِ انْبَعَثَ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ شَقِيقُ عَاقِرِ نَاقَةِ ثَمُودَ فَضَرَبَكَ ضَرْبَةً عَلَى قَرْنِكَ فَخَضَبَ مِنْهَا لِحْيَتَكَ » یاعلیؑ! میں رو رہا ہوں اس وجہ سے جو اس مہینہ میں آپؑ کے ساتھ پیش آئےگا، گویا آپؑ کو دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپؑ اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھ رہے ہیں اور اولین و آخرین کا بدبخت ترین شخص جو ثمود کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والے کی طرح ہے اٹھ کھڑا ہے اور آپؑ کے فرقِ سر پر ایک ضربت ماری ہے کہ اس سے آپؑ کی ریش رنگین ہوگئی ہے"۔
امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! "وَ ذَلِكَ‏ فِي‏ سَلَامَةٍ مِنْ‏ دِينِي‏‏"، کیا اس وقت میرا دین سالم ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: "فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ" ہاں آپؑ کا دین سالم ہوگا۔
پھر آپؐ نے فرمایا: "يَا عَلِيُّ مَنْ قَتَلَكَ فَقَدْ قَتَلَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ سَبَّكَ فَقَدْ سَبَّنِي لِأَنَّكَ مِنِّي كَنَفْسِي رُوحُكَ مِنْ رُوحِي وَ طِينَتُكَ مِنْ طِينَتِي إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خَلَقَنِي وَ إِيَّاكَ وَ اصْطَفَانِي وَ إِيَّاكَ وَ اخْتَارَنِي لِلنُّبُوَّةِ وَ اخْتَارَكَ لِلْإِمَامَةِ فَمَنْ أَنْكَرَ إِمَامَتَكَ فَقَدْ أَنْكَرَ نُبُوَّتِي يَا عَلِيُّ أَنْتَ وَصِيِّي وَ أَبُو وُلْدِي وَ زَوْجُ ابْنَتِي وَ خَلِيفَتِي عَلَى أُمَّتِي فِي حَيَاتِي وَ بَعْدَ مَوْتِي أَمْرُكَ أَمْرِي وَ نَهْيُكَ نَهْيِي أُقْسِمُ بِالَّذِي بَعَثَنِي بِالنُّبُوَّةِ وَ جَعَلَنِي خَيْرَ الْبَرِيَّةِ إِنَّكَ لَحُجَّةُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ أَمِينُهُ عَلَى سِرِّهِ وَ خَلِيفَتُهُ عَلَى عِبَادِهِ".[1]
یا علیؑ! جو آپؑ کو قتل کرے، یقیناً اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے آپؑ سے دشمنی کی، یقیناً اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے آپؑ پر سبّ و شتم کیا تو اس نے یقیناً مجھ پر سبّ و شتم کیا کیونکہ آپؑ میرے لئے میری جان کی طرح ہیں، آپؑ کی روح میری روح میں سے ہے، اور آپؑ کی طینت میری طینت میں سے ہے، یقیناً اللہ تبارک و تعالی نے مجھے اور آپؑ کو خلق کیا اور مجھے اور آپؑ کو چن لیا اور مجھے نبوت کے لئے اختیار کیا اور آپؑ کو امامت کے لئے اختیار کیا، پس جو شخص آپؑ کی امامت کا انکار کرے، یقیناً اس نے میری نبوت کا انکار کیا ہے، یا علیؑ! آپؑ میرے وصی اور میری اولاد کے باپ اور میری بیٹی کے شوہر اور میری امت پر میرے خلیفہ ہیں میری زندگی میں اور میری موت کے بعد، آپؑ کا حکم میرا حکم ہے اور آپؑ کا منع کرنا میرا منع کرنا ہے، میں قسم کھاتا ہوں اس کی جس نے مجھے نبوت کے لئے مبعوث کیا اور مجھے بہترین مخلوق قرار دیا کہ یقیناً آپؑ اللہ کی مخلوق پر اس کی حجت ہیں اور اس کے راز پر اس کے امین ہیں اور اس کے بندوں پر اس کے خلیفہ ہیں"۔

اور روایت میں اصبغ بن نباتہ، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: "يَا عَلِيُّ أَبْشِرْ بِالشَّهَادَةِ فَإِنَّكَ مَظْلُومٌ بَعْدِي مَقْتُولٌ فَقَالَ عَلِيٌّ ع يَا رَسُولَ‏ اللَّهِ‏ وَ ذَلِكَ‏ فِي‏ سَلَامَةٍ مِنْ‏ دِينِي‏ قَالَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ إِنَّكَ لَنْ تَضِلَّ وَ لَنْ تَزِلَّ وَ لَوْلَاكَ لَمْ يُعْرَفْ حِزْبُ اللَّهِ بَعْدِي‏"[2]، "یا علیؑ!  آپؑ کو شہادت کی خوشخبری ہو کیونکہ آپؑ میرے بعد مظلوم ہوں گے اور قتل کیے جائیں گے، تو حضرت علیؑ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! کیا اس وقت میرا دین سالم ہوگا؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: ہاں آپؑ کا دین سالم ہوگا، یقیناً آپؑ ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے اور ہرگز آپؑ سے لغزش سرزد نہیں ہوگی اور اگر آپؑ نہ ہوتے تو میرے بعد اللہ کا گروہ (حزب اللہ) نہ پہچانا جاتا"۔

حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے ماہ رمضان میں خطبہ دیتے ہوئے اس جملہ پر پہنچ کر فرمایا:میں نے سیدالانبیاء(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے سنا ہے کہ آپؐ فرماتے تھے: "فِي أَفْضَلِ الشُّهُورِ يُقْتَلُ أَفْضَلُ أَوْصِيَاءِ الْأَنْبِيَاء" سب سے افضل مہینہ میں انبیاء کا سب سے افضل وصی قتل کیا جائے گا۔ تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! کون سا مہینہ سب مہینوں سے افضل ہے اور اوصیاء میں سے افضل وصی کون ہے؟ تو آپ(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: "أَفْضَلُ الشُّهُورِ شَهْرُ رَمَضَانَ، وَ أَفْضَلُ الْأَوْصِيَاءِ أَنْتَ يَا عَلِيُّ. وَ كَأَنِّي بِكَ وَ قَدِ انْبَعَثَ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ شَقِيقُ عَاقِرِ نَاقَةِ ثَمُودَ فَيَضْرِبُكَ ضَرْبَةً عَلَى قَرْنِكَ تُخْضَبُ مِنْهَا لِحْيَتُكَ!. فَقُلْتُ: وَ هَذَا كَائِنٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: بَلَى وَ اللَّهِ" سب مہینوں سے افضل مہینہ ماہ رمضان ہے اور سب اوصیاء سے افضل آپؑ ہیں یا علیؑ، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ اولین و آخرین کا بدبخت ترین شخص جو ثمود کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والے کی طرح ہے، اٹھ کھڑا ہے، پس آپؑ کے فرقِ سر پر ضربت مارے گا جس سے آپ کی داڑھی رنگین ہوجائے گی! تو میں نے عرض کیا: کیا ایسا ہی ہوگا یا رسول اللہؐ! فرمایا: ہاں، اللہ کی قسم۔ تو میں نے عرض کیا: "وَ ذَلِكَ‏ فِي‏ سَلَامَةٍ مِنْ‏ دِينِي‏" کیا میرا دین سالم ہوگا؟ آپ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: "فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ"[3] ہاں آپؑ کا دین سالم ہوگا۔
تو لوگ یہ بات سن کر گریہ کرنے لگے اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) منبر سے نیچے تشریف لائے۔

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " فَلَمّا خَلا لَهُ الطَّريقُ اعتَنَقَني ، ثُمَّ أجهَشَ باكِيا ، فَقالَ : بِأَبِي الوَحيدُ الشَّهيدُ ! فَقُلتُ : يا رَسولَ اللّه ِ ، ما يُبكيكَ ؟ فَقالَ : ضَغائِنُ في صُدورِ أقوامٍ لا يُبدونَها لَكَ إلّا مِن بَعدي ؛ أحقادُ بَدرٍ ، وتِراتُاُحُدٍ . قُلتُ : في سَلامَةٍ مِن ديني ؟ قالَ : في سَلامَةٍ مِن دينِكَ " جب راستہ میں خلوت ہوگئی تو آنحضرتؑ نے مجھے گلے لگایا اور اچانک رونے لگے اور فرمایا: میرے باپ قربان ہوں تنہائے شہید پر! تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! آپ کو کس بات نے رلایا ہے؟ تو آنحضرتؐ نے فرمایا: بعض لوگوں کے دل میں کینہ ہے جسے وہ اپؑ پر ظاہر نہیں کریں گے، مگر میرے بعد! بدر کے کینے اور احد کا انتقام، میں نے عرض کیا: کیا میرا دین سالم ہوگا؟ فرمایا: آپؑ کا دین سالم ہوگا۔

حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا: یاامیرالمومنینؑ ذرا فتنہ کے بارے میں بتلائیے؟ کیا آپؑ نے اس سلسلہ میں رسول اکرمؐ سے کچھ دریافت کیا ہے؟ فرمایا: "إِنَّهُ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ قَوْلَهُ‏ الم أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ‏ عَلِمْتُ أَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا وَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْفِتْنَةُ الَّتِي أَخْبَرَكَ اللَّهُ بِهَا فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ أُمَّتِي سَيُفْتَنُونَ بَعْدِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ وَ لَيْسَ قَدْ قُلْتَ لِي يَوْمَ أُحُدٍ حَيْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَ حِيزَتْ عَنِّي الشَّهَادَةُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيَّ فَقُلْتَ لِي أَبْشِرْ فَإِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَرَائِكَ فَقَالَ لِي إِنَّ ذَلِكَ لَكَذَلِكَ فَكَيْفَ صَبْرُكَ إِذاً فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ هَذَا مِنْ مَوَاطِنِ الصَّبْرِ وَ لَكِنْ مِنْ مَوَاطِنِ الْبُشْرَى وَ الشُّكْرِ وَ قَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّ الْقَوْمَ سَيُفْتَنُونَ بِأَمْوَالِهِمْ وَ يَمُنُّونَ بِدِينِهِمْ عَلَى رَبِّهِمْ وَ يَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَهُ وَ يَأْمَنُونَ سَطْوَتَهُ وَ يَسْتَحِلُّونَ حَرَامَهُ بِالشُّبُهَاتِ الْكَاذِبَةِ وَ الْأَهْوَاءِ السَّاهِيَةِ فَيَسْتَحِلُّونَ الْخَمْرَ بِالنَّبِيذِ وَ السُّحْتَ بِالْهَدِيَّةِ وَ الرِّبَا بِالْبَيْعِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَبِأَيِّ الْمَنَازِلِ أُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذَلِكَ أَ بِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ أَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ فَقَالَ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ[4]، " جس وقت آیت شریفہ نازل ہوئی: کیا لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں ایمان کے دعوی ہی پر چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں فتنہ میں مبتلا نہیں کیا جائے گا" تو ہمیں اندازہ ہوگیا کہ جب تک رسول اکرمؐ موجود ہیں فتنہ کا کوئی اندیشہ نہیں ہے لہذا میں نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ یہ فتنہ کیا ہے جس کی پروردگار نے آپ کو اطلاع دی ہے؟ فرمایا: یا علیؑ! یہ امت میرے بعد فتنہ میں مبتلا ہوگی۔ میں نے عرض کی، کیا آپ نے احد کے دن جب کچھ مسلمان راہِ خدا میں شہید ہوگئے اور مجھے شہادت کا موقع نصیب نہیں ہوا اور مجھے یہ بات سخت تکلیف دہ محسوس ہوئی، تو کیا یہ نہیں فرمایا تھا کہ یا علیؑ! بشارت ہو۔ شہادت تمہارے پیچھے آرہی ہے؟ فرمایا: بے شک! لیکن اس وقت تمہارا صبر کیا ہوگا؟ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ تو صبر کا موقع نہیں ہے بلکہ مسرت اور شکر کا موقع ہے"۔
علامہ ذیشان حیدر جوادی صاحب، مولا کے اس جواب کے حاشیہ پر تحریر فرماتے ہیں: یہ ہے اس کل ایمان کا کردار جو زندگی کو ہدف اور مقصد نہیں بلکہ وسیلہخیرات تصور کرتا ہے اور جب یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ زندگی کی قربانی ہی تمام خیرات و برکات کا مصدر ہے تو اس قربانی کے نام پر سجدہ شکر کرتا ہے اور لفظ صبر و تحمل کو برداشت نہیں کرتا ہے۔[5]

نتیجہ: مقام شہادت تک پہنچنا حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی کوشش تھی، جس کی رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے متعدد موقعوں پر خبر دی تھی، آپؑ کی شہادت کی خبر دیکر گریہ بھی کرتے تھے، امیرالمومنین (علیہ السلام) ۱۹ ماہ رمضان کو صبح کے وقت اس پشینگوئی کی حقیقت کو پالیا اور اعلان کیا: فزت و ربّ الکعبۃ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] امالی شیخ صدوق، ص۹۵۔ بحارالأنوار: ج93 ص35۔
[2] بشارة المصطفى لشيعة المرتضى (ط - القديمة)، النص، ص: 58
[3]  زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص: 73
[4] نہج البلاغہ، خطبہ 156۔
[5] حاشیہ اردو ترجمہ نہج البلاغہ: ص291۔
 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
14 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 71