خلاصہ: وہ روزہ دار لوگ جو ماہ رمضان کے لمحات سے بہرہ مند ہونے کی پرزور کوشش کرتے رہے، ماہ رمضان کے آخری دنوں میں انہیں پریشانی اور حسرت محسوس ہوتی ہے کہ اب اس مہینہ سے خداحافظی کرنے کا وقت قریب آرہا ہے اور اس کے اختتام پذیر ہونے پر اس کی برکات کا دسترخوان سمیٹ لیا جائے گا۔ یہ مقالہ اسی سلسلے میں تحریر کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس چیز سے محبت ہو اسے چھوڑنا بھی مشکل ہوتا ہے اور جتنی محبت زیادہ ہو اتنی ہی چھوڑنے کی تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے، لیکن جس چیز سے دل نہ لگا ہو، اسے چھوڑنا آسان بلکہ کھو جانے کا انتطار ہوتا ہے۔ انسان مادیات اور ظاہری خوبصورتیوں کو دیکھ کر دھوکہ میں پڑجاتا ہے اور ان سے یوں دل لگا لیتا ہے کہ انہیں نہیں چھوڑ سکتا اور معنوی و اخروی امور سے اس طرح دوری اختیار کرتا ہے کہ اگر ان کو انجام دے بھی دے تو مجبوری سمجھ کر انجام دیتا ہے اور ساتھ ساتھ اس سے جان چھڑانے کا انتظار اور کوشش بھی کرتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے، دنیاوی خوبصورتیاں اس لئے خوبصورت دکھائی گئی ہیں تاکہ انسان کو آزمایا جائے کہ کون ان کو نظر انداز کرتا ہے اور ان حقائق اور معارف سے دل لگاتا ہے جو حقیقت پر مبنی ہیں اور ان کی حقیقت لازوال ہے، اگرچہ ان کا ظاہر، سادہ سی چیز ہو لیکن وہ ان کے ظاہر کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ اللہ کے وعدوں اور ان معنوی امور کے ذریعے اللہ کی رضامندی کو حاصل کرنے پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرتا ہے، ایسا آدمی رفتہ رفتہ حقائق کے باطن اور حقیقت کا ادراک بھی کرنے لگ جاتا ہے اور ان کی حقیقی خوبصورتی کو سمجھ جاتا ہے، پھر اس کے لئے ان اعمال کو انجام دینا آسان ہوجاتا ہے۔ ماہ رمضان میں چونکہ روزہ کی وجہ سے بھوک اور پیاس برداشت کرنی پڑتی ہے تو ہوسکتا ہے انسان اپنی جسمانی ضرورت کی طرف توجہ کرتے ہوئے اپنی روح کی خوراک سے اپنے آپ کو محروم کربیٹھے، لہذا ماہ رمضان میں پائے جانے والے فضائل اور برکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر وہ بھوک اور پیاس کو برداشت کرے تو وہ آدمی ماہ رمضان کے دن گزرنے پر افسوس زدہ ہوگا، کیونکہ قیمتی گوہر کھو رہا ہے اور فرصتیں کم ہوتی چلی جارہی ہیں۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی دعائے وداع، ماہ رمضان کے برکت آفرین لمحات کو الوداع کرنے کے سلسلہ میں ہے۔ لفظ وداع، دعۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی راحت و آرام اور پُرسکون زندگی کے ہیں اور مسافر کو وداع کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے اپنی محبّت و وابستگی کا اظہار کیا جائے اور اس کے لئے دعا کی جائے کہ سفر کی صعوبتیں اس کے لئے آسان اور منزل کی دشواریاں اس کے لئے سہل ہوں اور اسے دوبارہ پلٹ کر آنا نصیب ہو یا جہاں جانا چاہتا ہے وہاں سکون و قرار حاصل ہو۔ یہ وداع اس کی دلیل ہے کہ جسے وداع کیا جارہا ہے، نگاہوں میں اس کی عزّت اور دل میں اس کی قدر و منزلت ہے، اور اس کی جدائی گراں اور مفارقت شاق ہے۔ یہ محبت اور لگاؤ زمانہ و وقت سے بھی ہوسکتا ہے اور مکان سے بھی۔ ذی شعور سے بھی ہوسکتا ہے اور غیر ذی شعور سے بھی۔ اسی طرح ماہ رمضان کے لمحوں اور ساعتوں سے خطاب کرنا اس سے انتہائی وابستگی کی دلیل ہے۔ کیونکہ خاصانِ خدا کو ذکر الہی، اطاعت خداوندی اور عبادت سے اتنی الفت ہوتی ہے کہ وہ عبادت کے مخصوص دنوں اور لمحوں سے بھی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں اور ان لمحوں کی جدائی کو اتنا ہی محسوس کرتے ہیں جتنا دل باختگانِ محبت، محبوب کی جدائی کو اور اسی طرح بجھے ہوئے دل اور مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ انہیں الوداع کرتے ہیں جس طرح محبوب کو رخصت کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرتؐ اواخرِ ماہ رمضان میں یہ دعا پڑھتے اور حسرت آمیز جذبات کے ساتھ اسے الوداع کرتے۔
یہ دعا انہیں لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اس ماہ مبارک کے لمحات، عبادت و اطاعت میں گزارے ہوں، واجبات ادا کئے ہوں اور محرمات سے کنارہ کش رہے ہوں اور جنہوں نے نماز روزوں سے کوئی واسطہ نہ رکھا ہو تو انہیں اس کے آنے پر خوشی ہی کیا تھی کہ جانے کا رنج کریں اور اسے الوداع کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔ البتہ جنہوں نے خدا کی خوشنودی کا سروسامان کیا ہو اور اس کے مبارک لمحات میں زاد آخرت اکٹھا کیا ہو، فرائض و واجبات ادا کئے ہوں انہیں الوداع کرنا چاہیے تا کہ ان کے حسنات میں مزید اضافہ ہو اور رحمت و مغفرتِ الہی کے اہل قرار پائیں[1]۔ چنانچہ جابر ابن عبداللہ انصاری کہتے ہیں:
" دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ (ص) فِي آخِرِ جُمُعَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَلَمَّا بَصُرَ بِي قَالَ لِي يَا جَابِرُ هَذَا آخِرُ جُمُعَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ فَوَدِّعْهُ وَ قُلِ اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنْ صِيَامِنَا إِيَّاهُ فَإِنْ جَعَلْتَهُ فَاجْعَلْنِي مَرْحُوماً وَ لَا تَجْعَلْنِي مَحْرُوماً فَإِنَّهُ مَنْ قَالَ ذَلِكَ ظَفِرَ بِإِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ إِمَّا بِبُلُوغِ شَهْرِ رَمَضَانَ وَ إِمَّا بِغُفْرَانِ اللَّهِ وَ رَحْمَتِهِ"[2] ، "میں ماہ رمضان میں جمعۃ الوداع کے دن پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا، آنحضرت نے مجھے دیکھا تو فرمایا کہ اے جابر! یہ ماہ رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ لہذا اسے وداع کرو اور یہ کہو"اے اللہ! اسے ہمارے روزوں کا آخری زمانہ قرار نہ دے اور اگر تو نے قرار دیا ہے تو ہمیں اپنی رحمت سے سرفراز کر اور محروم نہ کر" تو جو شخص یہ کلمات کہے گا تو وہ دو خوبیوں میں سے ایک خوبی کو ضرور پائے گا۔ یا تو آئندہ کا ماہ رمضان اسے نصیب ہوگا، یا اللہ تعالی کی مغفرت و رحمت اس کے شامل حال ہوگی"۔
ماہ رمضان میں اتنی برکات پائی جاتی ہیں کہ اگر روزہ دار مادی اور جسمانی نظر سے بڑھ کر اس مہینہ کی حقیقت کو دیکھنے کی کوشش کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مہینہ کے ختم ہونے پر آدمی کو حسرت اور افسوس ہوتا ہے کہ کاش یہ مہینہ ختم نہ ہوتا۔ جیسا کہ روایات میں ماہ رمضان کے متعدد فضائل بیان ہوئے ہیں اور اس مہینہ کو دیگر سب مہینوں پر فوقیت حاصل ہے چنانچہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "شَهرُ رَمَضانَ شَهرُ اللّه عَز َّوَ جَلَّ وَ هُوَ شَهرٌ يُضاعِفُ اللّهُ فيهِ الحَسَناتِ وَ يَمحو فيهِ السَّيِّئاتِ وَ هُوَ شَهرُ البَرَكَةِ"[3]، " ماہ رمضان اللہ عزّوجلّ کا مہینہ ہے اور وہ ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ نیکیوں کو بڑھا دیتا ہے اور اس میں گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور وہ برکت کا مہینہ ہے"۔
اور رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ماہ رمضان کے اول، درمیان اور آخر کی یوں تعریف فرماتے ہیں:"هُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ وَ أَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ وَ آخِرُهُ الْإِجَابَةُ وَ الْعِتْقُ مِنَ النَّار"[4]، "رمضان وہ مہینہ ہے جس کی ابتدا رحمت ہے اور درمیان مغفرت ہے اور آخر قبولیت اور آگ سے رہائی ہے"۔
نیزنبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "لَوْ يَعْلَمُ الْعَبْدُ مَا فِي رَمَضَانَ لَوَدَّ أَنْ يَكُونَ رَمَضَانُ السَّنَة" اگر بندہ کو معلوم ہوتا کہ رمضان میں کیا ہے تو آرزو کرتا کہ پورا سال رمضان ہوتا۔[5]
نتیجہ: ماہ رمضان کیونکہ اللہ کی برکت و رحمت اور مغفرت کے نزول کا مہینہ ہے تو اسے آدمی دو نظروں سے دیکھ سکتا ہے: اس کے ظاہر کو دیکھے اور روزہ رکھنے کی تکلیف کو کسی طرح برداشت کرتا رہے اور ساتھ ساتھ انتظار میں رہے کہ یہ کب ختم ہوگا اور کب اس کی پابندیاں ہٹ جائیں گی، دوسری نگاہ یہ ہے کہ اس مہینہ کو دوسرے مہینوں سے افضل اور اللہ کی رحمت سمجھے کہ اللہ تعالی نے اسے توفیق دی ہے کہ اس مہینہ کو پاسکے اور اس کی فیوضات سے بہرہ مند ہوسکے، اس کے لمحہ لمحہ کو قیمتی سمجھے اور اس کے اوقات سے اچھی طرح فائدہ حاصل کرے تو ایسا آدمی نہ صرف ماہ رمضان کے ختم ہونے کا منتظر نہیں ہوگا بلکہ اس کے اختتام پذیر ہونے پر افسوس اور حسرت زدہ ہوگا، کیونکہ وہ اپنی آخرت کا سامان تیار کرنے کے لئے ماہ رمضان کو بہترین موقع سمجھ رہا ہے اور بتائے گئے اعمال کو انجام دیتا ہوا اپنے دامن کو رضائے الہی کے سرمائے سے بھررہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] حاشیہ ترجمہ صحیفہ کاملہ، ص342۔
[2]فضائل الأشهر الثلاثة، ص: 139
[3]بحار الانوار(ط - بیروت) ج93 ، ص340 - فضایل الاشهر الثلاثه ص95۔
[4]کافی(ط-الاسلامیه) ج 4 ، ص 67۔
[5] بحار الانوار(ط-بیروت) ج 93، ص 346 ، ح 12۔
Add new comment