خلاصہ:عید سعید فطر روایات میں۔
امیرالمؤمنین علی(علیه السلام) عید فطر کے خطبہ میں مؤمنوں کو بشارت دیتے ہیں کہ تم نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
خطب امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیه السلام یوم الفطر فقال: ایها الناس! ان یومکم هذا یوم یثاب فیه المحسنون و یخسر فیه المبطلون و هو اشبه بیوم قیامکم، فاذکروا بخروجکم من منازلکم الی مصلاکم خروجکم من الاجداث الی ربکم و اذکروا بوقوفکم فی مصلاکم و وقوفکم بین یدی ربکم، و اذکروا برجوعکم الی منازلکم، رجوعکم الی منازلکم فی الجنه.
عباد الله! ان ادنی ما للصائمین و الصائمات ان ینادیهم ملک فی آخر یوم من شهر رمضان، ابشروا عباد الله فقد غفر لکم ما سلف من ذنوبکم فانظروا کیف تکونون فیما تستانفون (1)
اے لوگو !یہ ایک ایسا دن ہے کہ جس میں نیک لوگ اپنی جزاء پائیں گے اور برے لوگوں کو سوائے مایوسی اور نامیدی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہ دن قیامت کے دن سے مشباہت رکھتا ہے، گھر سے نکل کر جب عیدگاہ کی طرف آؤ تو اس وقت کو یاد کرو جب قبروں سے نکل کر خدا کی طرف جارہے ہو گے اور جب نماز عید کے لیے کھڑے ہو تو اس وقت کو یاد کرو کہ جب خدا کے سامنے ٹہرے ہوگے اور نماز کے بعد جب اپنے گھروں کی طرف جاؤ تو اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم اپنی منزل کی طرف جارہے ہو گے اور یاد رکھو اس وقت تمہاری منزل بہشت ہونی چاہیے ، اے لوگو سب سے کم جو چیز روزہ دار مردوں اور عورتوں کو دی جائے گی وہ یہ کہ ایک فرشتہ ماہ مبارک رمضان کے آخری روزے کو نداء دے گا اور کہے گا :اے بندگان خدا تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں پس آگے کی فکر کرو کہ کیسے باقی زندگی گذارو۔
ایک بزرگ عارف، عید سعید فطر کے بارے میں کہتے ہیںکہ عید فطر ایک ایسا دن ہے کہ خداوند متعال نے اس دن کو باقی دنوں پر فضیلت دی ہے اور اس دن بخشش کو ایک بہترین ہدیہ قرار دیا ہے اور اس دن اپنے قریب آنے کا موقع قرار دیا ہے تاکہ ہم اسے امید کی نظر سے دیکھیں اور اپنی خطاؤں کا اقرار کریں اور اس دن اسکی بخشش حتمی ہے اور اس دن وہ ہر انسان کی بات سنتا ہے ۔(2)
البتہ یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ پہلی شوال کو عید کا دن کیوں کہا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن انسان سے روزے کی پابندی اٹھ جاتی ہے یعنی روزے سے کھانے پینے کا اتصال، فطر اور افطار ایک ہی مادہ سے ہیں افطار کرنا یعنی کھول دینا اور فطر بھی اسی طرح ہے۔
صحیفہ سجادیہ میں ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) نے عید سعید فطر کا کیسے استقبال کیا:
«اللهم صل علی محمد و آله و اجبر مصیبتنا بشهرنا و بارک لنا فی یوم عیدنا و فطرنا و اجعله من خیر یوم مر علینا، اجلبه لعفو و امحاه لذنب و اغفرلنا ما خفی من ذنوبنا و ما علن ... اللهم انا نتوب الیک فی یوم فطرنا الذی جعلته للمؤمنین عیدا و سرورا و لاهل ملتک مجمعا و محتشدا، من کل ذنب اذنبناه او سوء اسلفناه او خاطر شرا اضمرناه توبة من لا ینطوی علی رجوع الی.»
اے معبود!محمد و آل محمد پر درود بھیج اور ہماری مصیبتوں کو اپنے اس مہینے کے صدقے ہم سے دور فرما اور اس دن کو ہمارے لیے عید قرار دے گزرے ہوئے دنوں میں سے اس دن کو ہمارے لیے بہترین دن قرار دے اور اس دن کو ہمارے لیے بخشش کا دن قرار دے اور ہمارے مخفی اور آشکار گناہوں کو معاف فرما۔
خدایا! عید فطر کے دن کو کہ ہم مؤمنوں کو لیے خوشی اور مسلمانوں کے لیے اجتماع قرار دیا ہے ہم سے جو گناہ ہوئے ہیں یا جن بدکاریوں کے مرتکب ہوئے ہیں جو بھی نیت ہمارے دلوں میں ہے ہم تمہاری طرف لوٹ آئے ہیں ،خدایا !اس عید کو سب مؤمنوں کے لیے باعث رحمت قرار دے اور ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ توبہ کریں اور تیری طرف پلٹ آئیں۔(3)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
1- محمدی ری شهری، میزان الحکمه، 7/131 - 132
2- میرزا جواد آقا ملکی تبریزی، المراقبات فی اعمال السنه، تبریز، 1281 ق ص 167، مجله پاسدار اسلام، ش 101، ص 10
3- نک: ماهنامه پاسدار اسلام، شماره 101، اردیبهشت ماه 1369 ص 10 - 11، 50
رمضان، تجلی معبود (ره توشه راهیان نور) صفحه 248
Add new comment