دعائے وداع ماہ رمضان کے چند فقروں کی مختصر تشریح

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان سےخداحافظی کرتے ہوئے، اس مہینہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں، ان میں سے چند فقروں کی مختصر تشریح بیان کی گئی ہے۔

دعائے وداع ماہ رمضان کے چند فقروں کی مختصر تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عرب لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے کہتے ہیں: "السلام علیکم" اور ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہوئے بھی کہتے ہیں: "السلام علیکم"، حضرت امام سجاد (علیہ السلام) ماہ رمضان سے خداحافظی کرنے کے لئے "السلام علیک" کے جملہ سے متعدد فقروں میں اس مبارک مہینے کو الوداع کرتے ہیں۔
واضح ہے کہ وداع اس شخص کے لئے ہے جو ماہ مبارک رمضان سے مانوس رہا ہو اور یہ مہینہ اس کا دوست رہا ہو ورنہ جو شخص اس مہینہ کے ساتھ نہیں تھا اس کا اس مہینہ سے وداع اور حداحافظی کا کوئی معنی نہیں ہے، آدمی اپنے دوست سے یا جس سے کچھ عرصہ مانوس رہا ہو اس سے خداحافظی کرتا ہے، لیکن جسے بالکل یہ معلوم ہی نہیں کہ ماہ مبارک رمضان کب آیا اور کب گزر گیا، کیوں آیا اور کیوں گزر گیا، اس کا ماہ رمضان کو وداع کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔
اس دعا میں حضرت امام سیدالساجدین ماہ رمضان کو کئی بار سلام یعنی خداحافظ اور الوداع کہتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ماہ رمضان میں کوئی باطن، سرّ، حقیقت اور روح نہ پائی جاتی تو ولی اللہ اسے سلام نہ کرتے۔

حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) دعائے وداع ماہ رمضان میں اللہ تعالی کی بارگاہ قدسی میں عرض کرتے ہیں: وَ قَدْ أَقَامَ فِينَا هَذَا الشَّهْرُ مُقَامَ حَمْدٍ، وَ صَحِبَنَا صُحْبَةَ مَبْرُورٍ، وَ أَرْبَحَنَا أَفْضَلَ أَرْبَاحِ الْعَالَمِينَ، ثُمَّ قَدْ فَارَقَنَا عِنْدَ تَمَامِ وَقْتِهِ، وَ انْقِطَاعِ مُدَّتِهِ، وَ وَفَاءِ عَدَدِهِ. فَنَحْنُ مُوَدِّعُوهُ وِدَاعَ مَنْ عَزَّ فِرَاقُهُ عَلَيْنَا، وَ غَمَّنَا وَ أَوْحَشَنَا انْصِرَافُهُ عَنَّا، وَ لَزِمَنَا لَهُ الذِّمَامُ الْمَحْفُوظُ، وَ الْحُرْمَةُ الْمَرْعِيَّةُ، وَ الْحَقُّ الْمَقْضِيُّ، فَنَحْنُ قَائِلُونَ:

اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابلِ ستائش دن گزارے اور اچھی طرح حقِّ رفاقت ادا کیا اور دنیا جہان کے بہترین فائدوں سے ہمیں مالامال کیا۔ پھر جب اس کا زمانہ ختم ہوگیا، مدّت بیت گئی اور گنتی تمام ہوگئی تو وہ ہم سے جدا ہوگیا۔ اب ہم اسے رخصت کرتے ہیں اُس شخص کے رخصت کرنے کی طرح جس کی جدائی ہم پر شاق ہو اور جس کا جانا ہمارے لئے غم اور وحشت انگیز ہو اور جس کے عہد و پیمان کی نگہداشت عزت و حرمت کا پاس اور اس کے واجب الادا حق سے سبکدوشی بہت ضروری ہو۔ اس لئے ہم کہتے ہیں:[1]

"السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا شَهْرَ اللَّهِ الْأَكْبَرَ، وَ يَا عِيدَ أَوْلِيَائِهِ"
اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے، اور اے دوستانِ خدا کی عید تجھ پر سلام
تشریح: لفظ "شھر" (مہینہ) کا لفظ "اللہ" کی طرف اضافہ ہونا اس مہینہ کی عظمت کی نشاندہی کرتا ہے اور لفظ "الاکبر" کا "شھر" کی صفت قرار پانا اس لیے ہے کہ یہ مہینہ دیگر تمام مہینوں سے افضل ہے۔  چنانچہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خطبہ شعبانیہ میں فرمایا: " أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ‏ إِلَيْكُمْ‏ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَات‏"[2] "اے لوگو! یقیناً اللہ کے مہینہ نے برکت، رحمت اور مغفرت کے ساتھ تمہاری طرف رخ کیا ہے، ایسا مہینہ جو اللہ کے نزدیک (دیگر) مہینوں سے افضل ہے اور اس کے دن (دیگر) دنوں سے افضل ہیں اور اس کی راتیں (دیگر) راتوں سے افضل ہیں اور اس کی گھڑیاں (دیگر) گھڑیوں سے افضل ہیں"۔
ماہ رمضان واحد مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے اور روایات میں اس مہینہ کی دیگر مہینوں پر فضیلت بیان ہوئی ہے، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) خطبہ میں فرماتے ہیں: "أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ شَهْرٌ فَضَّلَهُ‏ اللَّهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ كَفَضْلِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ عَلَى‏ سَائِرِ النَّاس‏"[3]، " اے لوگو! بیشک یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دیگر مہینوں پر فضیلت دی ہے جیسے ہم اہل بیت کو دیگر لوگوں پر فضیلت دی ہے"۔
عید کے معنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "و العيد في اللّغة: ما يعود إلى الإنسان في وقت معلوم و منه العيد، لأنّه يعود كلّ سنة بفرح جديد".[4] "عید لغوی لحاظ سے اس چیز کو کہا جاتا ہے جو معلوم وقت میں انسان کی طرف عود کرے (یعنی پلٹ آئے) اور لفظ "عود" سے ہی لفظ "عید" کو لیا گیا ہے، کیونکہ ہر سال نئی خوشی کے ساتھ پلٹ آتی ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ امامؑ نے ماہ مبارک رمضان کو صرف اللہ کے دوستوں کے لئے عید کہا ہے، کیونکہ یہ مہینہ صرف اللہ تعالی کے دوستوں کے لئے خوشی اور سرور کا باعث ہے اور جو لوگ اللہ کے دوست نہیں ان کے لئے اس مہینہ میں خوشی نہیں ہے۔

"السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَكْرَمَ مَصْحُوبٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ، وَ يَا خَيْرَ شَهْرٍ فِي الْأَيَّامِ وَ السَّاعَاتِ"
اے اوقات میں بہترین رفیق اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے تجھ پر سلام
تشریح: جب انسان کسی قیمتی چیز کی قیمت کو پہچان لیتا ہے تو اس کی انتہائی حفاظت اور قدر کرتا ہے، جس مہینہ کے دن اور گھڑیاں قیمتی ہیں، عقلمند آدمی اور رضائے الہی کا خواہشمند شخص اپنی تمام تر کوشش کرتا ہے کہ اس مبارک مہینے کی گھڑیوں سے بہترین استفادہ کرے، کیونکہ اس کے اختتام پذیر ہوجانے کے بعد دوبارہ یہ موقع دستیاب نہیں ہوگا۔ اس مہینہ کے اوقات سے اتنی محبت ہوجاتی ہے کہ انسان کہتا ہے کہ میرے دوست و احباب اور بھی ہیں مگر اے ماہ رمضان تجھ جیسا میرا دوست نہیں ہے اور تو میرا بہترین دوست ہے۔

"السَّلَامُ عَلَيْكَ مِنْ شَهْرٍ قَرُبَتْ فِيهِ الْآمَالُ، وَ نُشِرَتْ فِيهِ الْأَعْمَالُ"
اے وہ مہینے جس میں امیدیں برآتی ہیں اور اعمال کی فراوانی ہوتی ہے، تجھ پر سلام
تشریح: ہماری امید یہ تھی کہ ماہ رمضان آئے اور ہم اپنی اصلاح اور تہذیب نفس کرسکیں، نیز حاجتیں پوری ہوں کیونکہ یہ مہینہ حاجتوں کے مستجاب ہونے کا بہترین موقع  ہے۔
جتنے مومن، کافر اور منافق ہیں سب اللہ تعالی سے رزق لے کر کھا رہے ہیں، نیز حیوانات بھی اللہ سے روزی لے کر زندگی بسر کررہے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان جیسی باعظمت مخلوق کی تمام حاجتیں مادیات کی حد تک رہ جائیں، مادی خواہشات تو کافروں اور منافقوں کی بھی پوری ہو رہی ہیں، اسی لیے مومن کو چاہیے کہ مادی اور دنیاوی خواہشات سے بڑھ کر معنوی، روحانی اور اخروی حاجتیں اللہ کی بارگاہ سے طلب کرے۔

"السَّلَامُ عَلَيْكَ مِنْ قَرِينٍ جَلَّ قَدْرُهُ مَوْجُوداً، وَ أَفْجَعَ فَقْدُهُ مَفْقُوداً، وَ مَرْجُوٍّ آلَمَ فِرَاقُهُ"[5]
اے وہ ہم نشین کہ جو موجود ہو تو اس کی بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے اور نہ ہونے پر بڑا دکھ ہوتا ہے۔
تشریح: جیسے آدمی اپنے گھرانہ کے کسی فرد کو کھو بیٹھتا ہے تو اس بات پر غمزدہ ہوتا ہے، جو مہینہ انسان کی روح میں اتر گیا ہو اور اس کی جان میں راسخ ہوجائے، جب وہ جان سے جدا ہونے لگے تو اس کی جگہ کو غم گھیر لیتا ہے اور اگر آدمی اللہ کی اس میزبانی میں، اللہ تعالی سے غنا اور بے نیازی طلب کرے تو کوئی چیز اسے متوجہ اور مصروف نہیں کرے گی، نہ کسی سے ڈرے گا اور نہ جان کو نثار کرنے سے دریغ کرے گا۔
نتیجہ: ماہ رمضان اللہ کا مہینہ ہے اور اللہ تعالی نے اس مہینے کو دیگر مہینوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی ہے، اس کی گھریاں قیمتی ہیں لہذا انسان کو چاہیے کہ روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے لمحات میں معنوی لحاظ سے بہترین فائدہ حاصل کرلے، امام سجاد (علیہ السلام) کی اس مبارک مہینہ سے خداحافظی، اس مہینہ کی عظمت پر واضح دلیل ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ماہ رمضان نیکیاں انجام دینے کی بہترین فرصت ہے اور یہ مہینہ اللہ کے دوستوں کی عید ہے۔
..................................................
حوالہ جات:
[1] یہ ترجمہ اور اگلے فقروں کا ترجمہ، علامہ مفتی جعفر علیہ الرحمہ کے ترجمہ صحیفہ کاملہ سے ہی یہاں پر تحریر کیا گیا ہے۔
[2] یعيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص: 295.
[3]  فضائل الأشهر الثلاثة، ص: 108.
[4]رياض السالكين في شرح صحيفة سيد الساجدين، ج‏6، ص: 160۔
[5] صحیفہ کاملہ، دعا 45۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
7 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 62