مضمون نگار: سید محمد عباس شارب۔
خلاصہ: اس مختصر مضمون میں، نماز عید فطر کے قنوت کے فقروں کی روشنی میں ہمیں جو تعلیمات حاصل ہوتی ہیں، ان کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔
عید فطر، مسلمانوں اور اہل ایمان کی عالمی عید ہے۔ پیغمبرخداؐ اور اماموں نے خدا کے الہام کے ذریعہ کچھ اوقات کو عید قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دن کیوں عید ہے اور کس نے پہلی شوال کو عید قرار دیا، اس کا فلسفہ کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کا بہترین ماخذ، اہلبیت علیہم السلام کی احادیث ہیں۔
نماز عید فطر کا اہم حصہ ، دعائے قنوت ہے۔ یہ دعا ۹ مرتبہ اس نماز میں پڑھی جاتی ہے، یقینا اس دعا میں ہمارے لئے کچھ اہم تعلیمات ہیں جو بارگاہ خداوندی سے ہمارے لئے اس دن کا بہترین تحفہ ہے اور رہنمائی ہے اس عظیم دن کی تفسیر کی طرف۔ہم اس مضمون میں اس دعا کی کچھ تعلیمات کو اختصار کے ساتھ، فہرستوار پیش کرینگے۔
۱۔ صفات الہی سے تمسک
اس دعا کا پہلا حصہ، صفات الہی کی شناخت کے متعلق ہے، معرفت خدا کا طلبگار انسان، بار ہا اس دعا میں اپنے رب کے اسماء سے تمسک اختیار کرتا ہے اور خود کو اپنے بے مثل خدا کے نزدیک پہونچا کر آواز دیتا ہے: ’’ اللّهُمَّ اَهْلَ الکِبْریاءِ وَالعَظَمَةِ ، وَاَهْلَ الْجُودِ وَالْجَبَرُوتِ ‘‘پروردگارا!اے وہ کہ جو عظمت و بزرگی کے لائق اور سخاوت و قدرت کا اہل ہے۔
۲۔فضائل کے سرچشمہ سے ارتباط
اس دعا کے دوسرے حصے میں ہم خدا کے عفو اور رحمت پہ توجہ دیتے ہوئے، اس کی بارگاہ میں عاجزانہ درخواست کرتے ہیں: ’’ وَاَهْلَ العَفْوِ وَالرَّحْمَةِ ، وَاَهْلَ التَّقْوَی وَالمَغْفِرَةِ ‘‘ پروردگارا! اے وہ کہ جوعفو و رحمت کا اہل ہے اور تقویٰ و مغفرت کا حقیقی ظاہر کرنے والا ہے۔
خداوند عالم، عفو و بخشش، رحمت و مغفرت کا حقیقی اہل ہے اور وہ اپنی اس صفت کی جانب، پیغمبر رحمت پر وحی کر کے اس طرح اشارہ کرتا ہے:’’ قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّه ِنَّ اللَّه یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمیعاً ِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحیمُ ‘‘پیغمبر آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔(۱)
۳۔عالم اسلام کی عزت کی نمایشگاہ
اس دعا کے ایک حصہ میں، مسلمانوں کی اس عید کو سیاسی اور اجتماعی زوایہ سے دیکھتے ہوئے، عالم اسلام کی عزت کی نمایش کو بطور حقیقی عید ، مسلمانوں کو مبارکباد پیش کر کے بارگاہ خدائے متعال میں عرض کرتے ہیں:’’ اَسْأَلُکَ بِحَقِّ هذَا الیَوْمِ ، الَّذِی جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِین عِیداً ‘‘ تجھ سے درخواست کرتا ہوں ا س دن کے حق کے طفیل میں کہ جسے تو نے مسلمانوں کے لئے عید قرار دیا ہے۔
عید فطر کا اجتماع ممکن ہے کہ مسلمانوں کے رابطے اور قربت کے لئے کارساز ثابت ہو۔ مسلمان ایک ساتھ جمع ہوکر ایک دوسرے کے حالات اور دکھ درد سے آگاہ ہونگے اور ممکن ہے کہ لوگوں کا بغض و کینہ، دوستی اور محبت میں تبدیل ہوجائے۔
۴۔پیغمبرؐ کے اکرام اور شکریہ کا دن
اس قنوت میں ۹ مرتبہ پیغمبر گرامی کے اکرام اور تعظیم کی بات کرتے ہوئے خدا سے تقاضا کیا جاتا ہے :’’ وَلِمُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم ذُخْراً وَشَرَفاً وَکَرامَةً وَمَزِیداً اَنْ تُصلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ‘‘ اور(اس دن کو) محمدؐ کے لئےذخیرہ، شرف، کرامت اور مقام کی بلندی قرار دیا، اے پروردگار، رحمت نازل فرما حضرت محمد اور ان کی آل(علیہم السلام) پر۔
۵۔اقدار کی جانب سفر
اس دعا میں ہم سب ، خوبیوں اور اچھائیوں کی طرف جانے کے لئے اور برائیوں سے دوری طلب کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’وَاَنْ تُدْخِلَنِی فِی کُلِّ خَیْرٍ اَدْخَلْتَ فِیهِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ‘‘ اور ہمیں ہر اس خوبی اور اچھائی میں داخل کر جس میں محمد و آل محمد(علیہم السلام) کو داخل کیا۔’’وَاَنْ تُخْرِجَنِی مِنْ کُلِّ سُوءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ‘‘ اور ہر اس برائی سے ہمیں باہر نکال دے جس سے محمد و آل محمد(علیہم السلام) کو نکالا ہے۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تمام اچھائیوں کی طرف پیش قدم رہیں یعنی تمام بہترین انسانی خصلتیں، مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے تمام عالم تک پہونچنی چاہئیں۔
۶۔ولایت اور معرفت امام کا دن
اس دعا کے چھٹے حصہ میں ان انسان کامل حضرات کے لئے صلوات و سلام کی آرزو کی جاتی ہے کہ جنکے دوش پر امت کی رہبری کی ذمہ داری ہے۔ ہم ان کے لئے اس طرح صلوات کے خواہاں ہوتے ہیں:’’ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلیْهِمْ ‘‘تیری صلوات اور رحمتیں نازل ہوں محمدؐ پر اور ان کے بابرکت خاندان پر۔
۷۔ نیک لوگوں کی پیروی کی آرزو
صالح بندوں کو نمونہ عمل اور اسوہ قرار دینا، اس دعا کی ایک اور تعلیم ہے؛ چونکہ مقصد اور منزل کی جانب رہنمائی، بغیر اسوہ اور آئیڈیل کے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس دعا کے آخری حصہ میں، بارگاہ خدائے منان میں ہم دعا کرتے ہیں :’’ اللّهُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ خَیْرَ ما سَأَلَکَ بِهِ عِبادُکَ الصّالِحُونَ ‘‘ خداوندا!تجھ سے اس بہترین چیز کی خواہش اور طلب کر رہا ہوں جس کو تیرے صالح بندوں نے تجھ سے طلب کیا ہو۔ ’’ وَاَعُوذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ المُخْلَصُونَ ‘‘(۲) اور تیری بارگاہ میں اس چیز سے پناہ چاہتا ہوں، جس سے تیرے مخلص بندوں نے پناہ چاہی ہے۔
خداوند عالم ہم سب کو اس عید پرمسرت کو اس کی مرضی کے مطابق منانے کی توفیق عنایت کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ سورۂ زمر آیت ۵۳۔
۲۔ مصباح المتهجد شیخ طوسی ، ج2 ، ص654 * العروة الوثقی ، سید محمدکاظم طباطبایی یزدی ، ج3 ، ص397 * مفاتیح الجنان حاج شیخ عباس قمی ، ص427۔
Add new comment