خلاصہ: ائمہ بقیع کے روضوں کو دو مرتبہ منہدم کیا گیا ہے، پہلی بار ۱۲۲۰ ہجری میں اور دوسری بار ۱۳۴۴ ہجری میں۔ وہابیوں نے چار ائمہ معصومین علیہم السلام اور دیگر روضوں کو منہدم اور مسمار کردیا، اس افسوسناک انہدام کا عالمی سطح پر رد عمل دکھایا گیا، مختلف ملکوں کے سربراہوں نے بھی اور علمائے کرام نے بھی رد عمل دکھاتے ہوئے ان کی اس تخریب کی مذمت کی۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اہل بیت (علیہم السلام) کے روضوں کے انہدام سے سعودیہ کے وہابی، ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے شیعوں اور محبّوں کے دلوں کو اب تک دو مرتبہ داغدار کرچکے ہیں۔
ائمہ بقیع کے روضوں کا پہلی مرتبہ انہدام
ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے روضوں کے انہدام کا واقعہ، سعودیہ کے وہابیوں کے ذریعہ پہلی بار ۱۲۲۰ ہجری میں یعنی جب عثمانی حکومت نے سعودیوں کی پہلی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اس دور میں رونما ہوا۔
وہابیوں کے حجاز میں ابھرنے سے (جو کہ ابن تیمیہ کے نظریات کی پیداوار ہیں) اور قبروں پر عمارت اور ان کی زیارت کو توحید کے منافی سمجھتے ہوئے حجاز کے مختلف علاقوں میں اس طرح کی ہر عمارت کو منہدم کردیا گیا، وہابیوں نے مدینہ کو اپنے گھیرے میں لے لیا، شہر کے باشندوں کے تسلیم کے بعد، سعود بن عبدالعزیز نے حرم نبوی (ص) کے خزانوں میں تمام موجودہ مال پر قبضہ کرتے ہوئے، بقیع کے سب گنبدوں کو ویران کردینے کا حکم دے دیا۔[1]
چار ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی بارگاہ اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا گنبد جس کا نام بیت الاحزان ہے، وہابیوں کے پہلے حملہ میں منہدم ہوگیا یا اسے سنگین نقصان پہنچا۔[2]
عبدالرحمن جَبَرتی کی رپورٹ کے مطابق، وہابی، مدینہ کو ڈیڑھ سال گھیرے میں لیتے ہوئے اور قحط پیدا کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوگئے اور روضۃ النبی (ص) کے علاوہ دیگر روضوں کومسمار کردیا۔[3]
حکومت عثمانی نے مدینہ پر قبضہ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجا اور ذی الحجۃ ۱۲۲۷ ہجری قمری میں مدینہ کو واپس لے لیا، بعض بارگاہوں کو ۱۲۳۴ ہجری قمری میں سلطان محمود ثانی کے حکم سے تعمیر کیا گیا، بعض رپورٹوں سے ان برسوں کے بعد بارگاہ کے وجود کا پتہ چلتا ہے. جنہوں نے ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی بارگاہ کی زیارت کی اور رپورٹ پیش کی ہے، ان میں سے ایک حسام السلطنہ، عباس میرزا قاجار کا بیٹا ہے جو ۱۲۹۷ ہجری میں حج کے سفر کے دوران مدینہ بھی گیا اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی بارگاہ اور بیت الاحزان کی زیارت کی ہے۔[4] اس نے بقیع میں دس سے زائد عمارتوں اور بارگاہوں کا تعارف کروایا ہے، چار ائمہ (علیہم السلام) کے بقعہ کی ایک محراب تھی اور اس کے بائیں طرف میں ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے مزار پر لکڑی کی سبز ضریح تھی، حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا بیت الاحزان، ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے بقعہ کے پیچھے تھا۔[5] حاج ایاز خان قشقائی کے سفرنامہ میں ۱۳۴۱ قمری یعنی ۱۳۴۴ قمری کے انہدام سے دو سال سے کچھ پہلے، بقیع کی عمارتوں کی رپورٹیں پائی جاتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے چار ائمہ (علیہم السلام) ایک بقعہ (بارگاہ) میں تھے مگر ہر ایک کے دفن کی جگہ واضح تھی، ایازخان نے ابراہیم، فرزند پیغمبر (ص)، عبداللہ بن جعفر طیار کی بھی بقیع میں اور نیز صفیہ پیغمبر (ص) کی پھوپھی اور عاتکہ صفیہ کی بہن، ام البنین حضرت عباس (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ اور بنی ہاشم کے دیگر کچھ افراد کا بقیع کے قریب ایک گلی میں وقوع کو ذکر کیا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ آخری ایرانی زائرین میں سے ہے جس نے بقیع کے بیت الاحزان کی زیارت کی ہے۔[6]
بقیع کا دوسری مرتبہ انہدام
دوسرا اور درحقیقت آخری صدیوں کا افسوسناک ترین تاریخی حادثہ، آٹھ شوال ۱۳۴۴ میں سعودیہ کی تیسری وہابی حکومت کے برسرکار آنے کے بعد رونما ہوا، مکہ پر قبضہ کرتے ہوئے وہابی، عبدالعزیز بن سعود کی سربراہی میں مدینہ کی طرف آئے اور شہر کے محافظوں سے جنگ کرتے ہوئے اور شہر کو گھیرے میں لیتے ہوئے، آخرکار اس پر قبضہ کرلیا، انہوں نے عثمانی افسروں کو نکالتے ہوئے ائمہ بقیع اور دیگر اہم شخصیات کی قبروں کو منہدم کردیا، ائمہ بقیع کی اسٹیل کی ضریح جو اصفہان میں تیار کی گئی تھی اور معصومین حضرات امام حسن مجتبی، امام سجاد، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) کی قبروں پر تھی، اسے وہاں سے اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
انہوں نے قبرستان کو شیخ عبداللہ بلیہد، سعودیہ کے قاضی القضاۃ کے فتوے سے، قبروں کی زیارت کا شرک و بدعت ہونے کے بہانے سے ویران کردیا۔[7] جبکہ قبروں کی زیارت، اکثر شیعہ و سنی مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق، اسلامی اعتقادات اور اصول کے منافی نہیں ہے اور بزرگوں کی قبروں اور مومنوں کے مزار کی زیارت، ایک مستحب کام ہے اور اسلامی سنت میں اس کا سابقہ پایا جاتا ہے۔[8] بقیع کی مذہبی جگہیں اور عمارتیں، مذہبی پہلو کے علاوہ تاریخی پہلو کی بھی حامل تھیں اور مسلمانوں کے لئے تاریخی تشخص کی علامت تھیں۔
مسلمانوں کا رد عمل
وہابیوں کو بقیع کے انہدام کی ابتدا ہی میں مسلمانوں کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا اور اسلامی ممالک کی حکومتیں اور سیاسی و مذہبی نمائندوں نے وہابیوں کو ردعمل دکھایا اور ان کی مذمت کی۔
مسلمان حکومتوں نے اس کام پر اعتراض کیا اور بعض حکومتوں منجملہ حکومت ایران نے اپنے ملک کے لوگوں پر حجاز کے سفر کو ممنوع قرار دے دیا۔ ایران کی حکومت نے سرکاری طور پر ایک وفد کو حجاز بھیجا جو حرمین اور بقیع کے سلسلے میں رپورٹ تیار کرے۔ حکومت ہندوستان نے بھی ایک وفد مکہ بھیجا جو اس کام پر شدت سے اعتراض کرے۔
حکومت ایران نے ۱۶ صفر ۱۳۴۴ قمری کو بقیع کی حرمت پامال ہونے کی وجہ سے، عام عزاداری کا اعلان کیا اور آیت اللہ مدرس نے مجلس شورا میں اس کام سے مقابلہ کرنے کے لئے کچھ کوششیں شروع کیں۔ آل سعود کا بقیع کے ویران شدہ مقامات کو تعمیر نہ کرنا، رکاوٹ بنا کر حکومت ایران نے سعودیہ حکومت کو کئی سالوں تک تسلیم نہ کیا اور اس کے بعد بھی یہ مسئلہ کتنی مدت تک باہمی تعلقات کے دھندلاپن کا باعث بنا رہا۔[9]
علمائے کرام کا رد عمل یہ تھا کہ سید ابوالحسن اصفہانی اور دیگر دینی علما اور نجف و قم کے بزرگوں نے وہابیوں کے سامنے موقف اختیار کیا۔ کہا گیا ہے کہ قبرستان بقیع کے انہدام نے آیت اللہ حائری کا جو حوزہ علمیہ قم کے بانی ہیں، درس کے منبر پر گریہ جاری کردیا اور انہوں نے اپنے درس کی چھٹی کردی اور قم کے بازار کی بھی بند کر دیا گیا۔[10] اور آیت اللہ بروجردی نے اپنے نمائندہ محمد تقی طالقانی کو حالات کا جائزہ لینے کے لئے مدینہ روانہ کیا۔
کراچی میں اسلامی کانفرنس میں بھی محمد حسین کاشف الغطا نے اور محمد تقی طالقانی، آیت اللہ بروجردی کے نمائندہ نے سعودیوں کے نمائندہ سے گفتگو کی اور انہوں نے قبرستان بقیع کی تعمیر پر زور دیا۔[11] سید محسن امین، حالات کا جائزہ لینے کے لئے حجاز گئے اور اپنی تحقیق کا نتیجہ کتاب کشف الارتیاب میں مسلمانوں کو پیش کیا۔ نیز بعض فقہا نے بقیع کی بارگاہوں کو تعمیر کرنے کے لازمی ہونے کا فتوا دیا۔[12]
اس پہل کے باعث، خود وہابیوں اور سعودیوں کے افراد اپنے سربراہوں کے مخالف ہوگئے اور ان کے انتہا پسند کاموں کی مذمت کی[13]، شیعہ ہر سال آٹھ شوال کو جو "یوم الہدم" کے نام سے مشہور ہے، مجالس منعقد کرتے ہیں اور بقیع اور اس کی مقدس بارگاہوں کو یاد کرتے ہوئے، ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی مرثیہ خوانی اور عزاداری کرتے ہیں۔
اس حادثہ میں وہابیوں نے شیعہ مقدسات کی توہین اور تحقیر پر مبنی اپنے سربراہوں کے فتووں کے مطابق، ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے روضوں پر دوسری بار سفاکانہ حملہ کرتے ہوئے بقیع کو ویران اور متروکہ قبرستان میں تبدیل کردیا۔
سعودی وہابیوں نے بقیع کے روضوں کو منہدم کرنے پر اکتفاء نہ کی بلکہ کئی بار پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے روضہ کو منہدم کرنے کی بھی کوشش کی مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کے عظیم ردّعمل کا سامنا کرتے ہوئے اس غیراسلامی سازش سے دستبردار ہوگئے۔
نتیجہ: وہابیوں نے مسلمانوں کے قبرستان بقیع کی تاریخی بنیادوں کو منہدم کرنے کی دو بار کوشش کی، ان میں سے ایک، آٹھ شوال کا حادثہ ہے جس میں سعودیہ کے وہابیوں نے بقیع کے ائمہ معصومین (علیہم السلام) اور دیگر قابل احترام شخصیات کے روضوں کو مسمار کرتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں اور شیعوں سے دشمنی کی مضبوط اور گہری بنیاد رکھ دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] من اخبار الحجاز و النجد، ص104؛ البقیع قصة التدمیر، ص94.
[2] عجائب الآثار، ج3، ص91.
[3] عجائب الآثار، ج3، ص91.
[4] حسام السلطنه، دلیل الانام فی سبیل زیارة بیت الله الحرام، ص152.
[5] حسام السلطنه، دلیل الانام، ص152.
[6] ایازخان قشقایی، سفرنامۀ حاج ایازخان قشقایی به مکه، مدینه و عتبات عالیات در روزگار احمد شاه قاجار، ص455.
[7] البقیع قصة التدمیر، ص113-139؛ بقیع الغرقد، ص49.
[8] التاریخ الامین، ص431-450؛ بقیع الغرقد، ص12.
[9] اسناد روابط ایران و عربستان سعودی (1304-1357ه.ش)، ص61، ش18، 12نیسان 1925م.
[10] قیع الغرقد، ص53.
[11] ائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج12، ص393، «بقیع».
[12] بقیع الغرقد، ص55.
[13] خزانة التواریخ النجدیه، ج8، ص159-160.
Add new comment