خلاصہ: انسان جوانی میں اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوار سکتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جس طرح درختوں کی شاخیں اور ٹہنیاں موسم بہار میں نکھرتی ہیں اسی طرح انسان کی روح جوانی میں نکھرتی ہے، جس طرح درخت بہار کے موسم میں ہرے بھرے ہوجاتے ہیں اسی طرح جوانی بھی روحی اور معنوی صلاحیتوں کو بارآور کرنے کا وقت ہے، یہ ایسی صلاحیتیں ہیں کہ اگر بارآور ہوجائیں تو ان کے نتیجہ میں انسان کی بقیہ عمر بڑھاپے تک انہی کے سایہ میں پروان چڑھتی ہے، جس کے بارے میں خداوند عالم نے بھی انسان کی جوانی کی اہمیت کو بتاتے ہوئے سورہ روم میں ارشاد فرمایا ہے: «اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفاً وَ شَيْبَةً يَخْلُقُ ما يَشاءُ وَ هُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ[سورہ روم، آیت:۵۴] اللہ ہی وہ ہے جس نے تم سب کو کمزوری سے پیدا کیا ہے اور پھر کمزوری کے بعد طاقت عطا کی ہے اور پھر طاقت کے بعد کمزوری اور ضعیفی قرار دی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے کہ وہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب قدرت بھی ہے»۔
اس آیت میں خداوند عالم نے زندگی کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے بچپن، جوانی اور پیری، زندگی کے ان تین مرحلوں میں انسان جوانی کے دور میں بہت سے کام انجام دے سکتا ہے، اس لئے کہ یہ دور انسان کی طاقت اور صلاحیتوں کے عروج کا دور ہوتا ہے، جوانی کام کاج، سعی و کوشش اور امید و نشاط کا وقت ہے، انسان کی زندگی میں بہت سی اہم تبدیلیاں اسی دوران رونما ہوتی ہیں اور اسی دوران فرد کی سرنوشت اور اس کے مختلف پہلو معین ہوتے ہیں، اس نکتہ کے پیش نظر کہ انسان دنیا میں صرف ایک بار آتا ہے اور اس کی زندگی کا اہم ترین دور جوانی کا ہی دور ہوتا ہے اسی لئے ہمیں چاہئیے کہ اس دور کی حساسیت کو سمجھیں اور اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں، جوانی کا دور بہت ہی اہم دور ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اس دور میں مختلف انداز اور شکلوں میں پر ثمر اور بہتر طور پر استقادہ کرنے کی تاکید ہے۔
زندگی میں جوانی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی( علیہ السلام) جوانی کے بارے میں فرمارہے ہیں: « شيئان لا يعرف فضلهما إلّا من فقدهما ألشّباب و العافية[۱] دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر صرف اسی وقت معلوم ہوتی ہے جب یہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں ایک جوانی اور دوسرے تندرستی»۔
جوانی کا دور زندگی کا اہم ترین دور ہوتا ہے اگرچہ جوان کو پہلے مرحلے میں کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی شخصیت کی تلاش میں رہتا ہے، چنانچہ وہ اپنی اہم فطری صلاحیتوں پر توجہ کرے اور اپنے تشخص کو پالے اور اس سنہرے موقع سے استفادہ کرلے تو اس کی زندگی کی بنیادیں مضبوط و مستحکم ہوجائیں گي اور وہ منزل کمال تک پہونچ جائے گا، درحقیقت جوان کے اندر ذھنی طور پر یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ اس خالی اور زرخیز زمین کی طرح سے ہے جو بوئے جانے والے ہر بیج کو اگانے اور اس کی پروش کے لئے تیار ہے جس طرح امام على(عليه السلام) فرما رہے ہیں: « إِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالْأَرْضِ الْخَالِيَةِ مَا أُلْقِيَ فِيهَا مِنْ شَيْءٍ قَبِلَتْهُ فَبَادَرْتُكَ بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُكَ وَ يَشْتَغِلَ لُبُّك[۲] بے شک نوجوان کا دل خالی زمین کی مانند ہوتا ہے، جو چیز اس میں ڈالی جائے اسے قبول کر لیتا ہے، لہٰذا اس سے قبل کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارا ذہن دوسری باتوں میں مشغول ہوجائے میں نے تمہاری تعلیم و تربیت کیلئے قدم اٹھایا ہے»۔
اس حدیث کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھ میں آرہا ہیں کہ جوانی زندگی کا ایک ایسا موڑ ہے جہاں انسان کو اپنی پوری زندگی کے سرمایہ کو جمع کرناہے جس کے بارے میں امام صادق(عليه السلام) فرما رہے ہیں: « لَسْتُ أُحِبُ أَنْ أَرَى الشَّابَ مِنْكُمْ إِلَّا غَادِياً فِي حَالَيْنِ إِمَّا عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَرَّطَ فَإِنْ فَرَّطَ ضَيَّعَ فَإِنْ ضَيَّعَ أَثِمَ وَ إِنْ أَثِمَ سَكَنَ النَّارَ وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ[۳]میں دوست نہیں رکھتا کہ تمہارے جوانوں کو دو حالتوں سے خالی دیکھوں، یا وہ عالم ہوں یا طالب علم، اگر جوان یہ کام نہ کرے تو اس نے کوتاہی کی اور اپنے آپ کو برباد کیا اور اگر اس نے اپنے آپ کو برباد کیا تو اس نے گناہ کیا اور اگر گناہ کیا تو اسکا ٹھکانہ جہنم ہے خدا کے قسم جس نے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا»۔
نتیجہ: احادیث میں آیا ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا میں انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی جو وقت ہے وہ اس کی جوانی کا وقت ہے، اسی لئے ہم کو چاہئے کہ ہم اپنے اس قیمتی وقت کو صحیح طریقہ سے استعمال کریں اور اسے خدا اور معصومین(علیہم السلام) کی معرفت کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[۱]۔عبد الواحد بن محمد تميمى آمدى، غرر الحكم و درر الكلم، دار الكتاب الإسلامي، ۱۴۱۰ ق، ص۴۱۴.
[۲]۔ محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۱، ص۲۲۳.
[۳]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۱، ص۱۷۰.
Add new comment