ردّ الشمس کا معجزہ کہاں اور کیسے؟

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: ۱۵ شوال کی مناسبت سے مقالہ ھذا میں مولائے کائنات(علیہ السلام) کا سورج کو پلٹانے کا معجزہ کہ جسے رد الشمس کہتے ہیں، بیان کیا گیا ہے۔  

ردّ الشمس کا معجزہ کہاں اور کیسے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جب انسان کا ذہن مادّیات سے بہت زیادہ وابستہ ہو جاتا ہے تو ایک وقت وہ آتا ہے کہ یہ مادّہ پرست شخص، ہر غیر مادی چیز کا انکار کرنے لگتا ہے یہان تک کہ خدا اور وحی، روح اور ملائکہ، جنت و جہنم  سب کا منکر ہو جاتا ہے کیوں کہ یہ شخص فقط محسوسات اور ملموسات کو ہی حقیقت سمجھتا ہے۔
معجزہ بھی ایسی ہی  ایک غیر معمولی اور ماوراء الطبیعۃ چیز ہے، بعض لوگ اسکا انکار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ البتہ ہر وہ شخص جو معجزہ کا منکر ہو، ضروری نہیں کہ مادہ پرست ہو بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ معجزہ کو سمجھنا اور اس پر یقین کرنا قدرِ مشکل ہوتا ہے اور اس کے لیئے پختہ ایمان کی ضرورت ہے۔

معجزہ اور کرامت کیا ہے؟
معجزہ ایک ایسا غیر معمولی کام ہے جو نبوت کے دعوے کے ساتھ انجام دیا جائے اور  اس کے مقابلے میں لوگوں کو  چیلنج کیا جائے اور لوگ اس طرح کے کام سے عاجز ہوں تا کہ اس کام کے ذریعہ معجزہ دیکھانے والا اپنا اور اپنے پروردگار کے درمیان رابطہ برقرار ہونے پر دلیل پیش کرسکے [1]۔ البتہ اگر یہی کام نبوت کے دعوے کے بغیر انجام دیا جائے تو اسے کرامت کہتے ہیں۔ لہذا صحیح معنوں میں ائمہ (علیہم السلام) کرامات کے حامل تھے لیکن  ان کرامات کو معجزہ کے لفظ کے ذریعے بھی یاد کیا جاتا ہے[2]۔

معجزہ پر دلائل
قرآن کریم، روایات اور تاریخ، اس بات کی گواہ ہیں کہ معجزہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت  ہے۔
خداوند عالم نے اپنے پاک کلام میں متعدد مقامات پر معجزہ کے مصادیق کو بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت موسی(علیہ السلام) کے عصا کا اژدہا بننا اور جادو گروں کے سانپوں کو  نگل جانا، آپکے ہاتھ سے روشنی نکلنا[3] اور اسی طرح  حضرت موسی(علیہ السلام) کو خداوند عالم نے ۹ معجزہ دئے تھے[4]۔حضرت عیسی (علیہ السلام) کا گہوارہ میں کلام کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا، نابینا کو بینائی عطا کرنا، مریضوں کو شفا دینا، یہ سب جناب عیسی(علیہ السلام)  کے معجزہ ہیں[5]۔
اسی طرح سے تاریخ میں اولیاء اور اوصیائے الہی کی کرامات اور معجزہ بھی نقل ہوئے ہیں اور ان سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ اطہار (علیہم السلام) بھی صاحبان معجزہ تھے لیکن یہ بات واضح رہے کہ ائمہ (علیہم السلام) نے کبھی بھی نبوت کا دعوی نہیں کیا۔
اختصار کو مدّ نظر رکھتے ہوئے تمام دلائل کو بیان کرنا ممکن نہیں لھذا قارئیں گرامی مزید تاریخی اور روائی شواہد کے لیئے ان چند کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ عيون المعجزات، بحارالانوار، اثبات الهداة، اصول كافي، مدينة المعاجز، مناقب ابن شهرآشوب، اثبات الوصيه (مسعودي)، شرح نهج البلاغه (ابن ابي الحديد)، دلايل الامامه طبري و غیرہ

رد الشمس کا معجزہ
امیر المومنین حضرت علی(علیہ السلام)کے بے شمار معجزات اور کرامات ہیں جن میں سے  ایک معجزہ رد الشمس کا ہے۔ ۱۵ شوال کے دن مولا (علیہ السلام)نے اس معجزہ کو انجام دیا۔ علامہ مجلسی (رح) فرماتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت (علی علیہ) السلام نے  ایک بار نہیں بلکہ کئی بار سورج کو پلٹایا ہے، جنگ خندق  کے دن، احد میں، حنین میں، خیبر میں، غاضریہ میں، صفین میں، نہروان میں اور بیعت رضوان کے دن، لیکن جو چیز مشہور ہے وہ یہ کہ  اس معجزہ کو حضرت نے دو مرتبہ انجام دیا تھا، ایک مرتبہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانے میں اور دوسری مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وفات کے بعد[6]۔
قول مشہور کی بنا پر ان دونوں واقعات کو مختصر طور پر آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
پہلی مرتبہ:اس واقعہ کو بحار الانوار اور اصول کافی کے علاوہ بھی معتبر کتابوں میں معمولی اختلاف کے ساتھ ذکر کیا  گیا ہے۔  ایک دن امیر المومنین حضرت علی  (علیہ السلام)رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھر پر تشریف فرما تھے، اسی وقت جبرئیل امیں وحی کے ساتھ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہوئے اور اسی حالت وحی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے  اپنا سر حضرت علی (علیہ السلام) کے  زانو پر رکھ دیا اور اسی حالت میں رہے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہونے لگا، حضرت امیر (علیہ السلام) نہ تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا سر مبارک اپنے زانو سے ہٹا سکتے تھے اور نہ ہی کھڑے ہو کر تمام آداب کے ساتھ نماز قائم کر سکتے تھے لھذا اس وقت مولا (علیہ السلام) نے اسی حالت میں بیٹھ کر نماز ادا کی  اور  رکوع و سجود اشاروں سے انجام دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ جب پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر سے اس روحانی حالتِ وحی کا ازالہ ہوا  اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو افاقہ ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مولا علی (علیہ السلام) سے پوچھا کہ کیا نماز عصر قضا ہو گئی تو مولا (ع) نے فرمایا کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا سر میرے زانو پر تھا اور میں آپ کو اذیت نہیں دینا چاہتا تھا لھذا بیٹھ کر نماز ادا کی اور تمام آداب کہ ساتھ نماز نہیں پڑھ سکا۔
اس بات کو سننے کے بعد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : اے علی ! آپ نے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی ہے اس لیئے اللہ آپ کی دعا کو ضرور مستجاب کرے گا، آپ خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کیجیئے کہ وہ سورج کو پلٹادے تاکہ آپ اول وقت نماز ادا کرسکیں۔ مولا (علیہ السلام) نے حسب حکم ِ رسول دعا کی، خداوند متعال نے دعا قبول فرمائی اور سورج اپنی جگہ واپس پلٹ آیا، مولا نے اول وقت تمام آداب کے ساتھ نماز ادا کی اور پھر سورج غروب ہو گیا[7]۔
دوسری مرتبہ:یہ واقعہ رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  کی  وفات کے بعد پیش آیا، جب مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام)شہر بابل میں اپنے اصحاب کے ساتھ فرات سے گزر رہے تھے اس دوران نماز کا وقت ہو گیا اور مولا (علیہ السلام) نے اپنے چند اصحاب کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر لی لیکن اکثر اصحاب اپنے مرکب اور سامان سفر کو دریائے فرات پار کروانے میں مصروف رہے او ر ان اصحاب کی نماز عصر قضا ہو گئی اور مولا(علیہ السلام) کے ساتھ با جماعت نماز ادا کرنے سے محروم رہ گئے،بعد میں لوگ بہت افسوس کرنے لگے اور حضرت سے اپنے افسوس اور پریشانی کو بیان کیا اور وقت پر نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی، مولا (علیہ السلام) نے اصحاب کی پریشانی اور اضطراب کے پیش نظر خداوند عالم کی بارگارہ میں سورج کے پلٹ آنے کی دعا کی، ابھی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ سورج، نماز عصر کے افق پر پلٹ آیا اور اصحاب نے نماز ادا کی، جیسے ہی نماز کا آخری سلام ادا ہوا سورج پھر غروب ہو گیا [8]۔

کچھ وضاحتیں:
۱) واضح رہے کہ ان واقعات میں سب نے یہ بیان کیا ہے کہ امام علی (علیہ السلام) نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور مولا (ع) کی نماز قضا نہیں ہوئی۔
۲) جب نماز قضا نہیں ہوئی تو سورج کیوں پلٹایا گیا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ سورج کو پلٹانے کے دو اہم مقصد تھے، پہلا یہ کہ مولا چاہتے تھے کہ نماز کو تمام آداب کے ساتھ(قیام کی حالت، مکمل رکوع اور سجود کی رعایت کرتے ہوئے) انجام دیں اور دوسرا  اور ضروری مقصد یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امت کو مولائے کائنات کی فضیلت سے آگاہ کرنا تھا،جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی حیات طیبہ میں مکرر انجام دیتے رہتے تھے۔
۳) ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی زندگانی میں اصل یہ تھا کہ نماز اوّل وقت ادا کی جائے اور نماز کا اوّل وقت انجام دینا مستحب ہے واجب نہیں، فقہی قائدوں میں بھی بیان ہوا ہے کہ ایک واجب کام کو انجام دینے کے لیئے مستحب کام کو چھوڑ دینا چاہیئے۔
۴) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آرام کا خیال رکھنا واجب ہے اور نماز کو اوّلِ وقت  تمام آداب کے ساتھ انجام دینا مستحب ہے۔
۵) فقہ اسلامی کے مطابق اگر ایک عمل کسی کی  اذیت و ایذا کا سبب بنے تو اسکو چھوڑ کر اسکا بدل انجام دینا چاہیے، لھذا کچھ اعمال ایسے ہیں کہ جنکا بدل موجود ہے، مثلا اگر کوئی وضو نہیں کر سکتا تو تیمم کرے، اسی طرح اگر کوئی کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر نماز پڑھے، اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔مولائے کائنات (علیہ السلام) نہیں چاہتے تھے کہ رسول گرامی اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو  ذرا سی بھی اذیت ہو لھذا انکو بیدار نہیں کیا اور بیٹھ کر نماز پڑھی۔

یہ تھا مختصر خاکہ ان دو واقعات کے حوالہ سے، ممکن ہے بعض افراد کے لیئے رد الشمس کا معجزہ قابلِ ہضم نہ ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور اس کے علاوہ بھی حضرت امیرِ کائنات علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بے شمار معجزات تاریخ میں ملتے ہیں جیسے مردوں کو زندہ کرنا، مریضوں کو شفا دینا، غیب کی باتیں بتانا، جانوروں سے گفتگو کرنا، وغیرہ کہ جنکا بیان کرنا، اس مقالہ کی وسعت سے باہر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

[1] الهيات و معارف اسلامي، استاد جعفر سبحاني، ص ۱۹۵، نشر مؤسسه امام صادق.
[2] كشف المراد، شرح تجريد الاعتقاد خواجه نصيرالدين طوسي، ترجمه ابوالحسن شعراني، ص ۵۲۰ ـ ۵۱۹ ـ ۴۸۸، باب نبوت و امامت، انتشارات كتابفروشي اسلاميه تهران۔
[3] سوره اعراف، آیہ ۱۰۷۔۱۱۷ اور سورہ نمل ۱۲
[4] سورہ اسراء آیۃ ۱۰۱
[5] سورہ آل عمران آیۃ ۴۹ اور سورہ مریم آیۃ ۲۹ و ۳۰
[6] مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ج ۴۱ صفحہ ۱۷۳- بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
[7] الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،شیخ مفید، ج‏1، ص: 345 -  بحار الأنوار (ط - بيروت)،علامہ مجلسی، ج‏41، ص: 174
[8] الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،شیخ مفید، ج‏1، ص: 34۶ - مدينة المعاجز، سيدهاشم بحراني، ج ۱، ص ۱۹۴ ـ ۲۰۵، ح ۱۱۵، (نشر مؤسسة المعارف الاسلامية)

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
15 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 32