’’ردّ الشمس‘‘ کے معجزہ سے متعلق سوالات

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس تحریر میں ردّ الشمس کے معجزہ کے متعلق پانچ سوالوں کے جوابات پیش کیئے گئے ہیں۔

’’ردّ الشمس‘‘ کے معجزہ سے متعلق سوالات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یقینا معجزہ ایک غیر معمولی کام ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ معجزہ سے متعلق بہت سارے سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔’ردّ الشمس‘ کا معجزہ  ہو یا ’شقّ القمر‘ کا معجزہ، دونوں کی بنسبت سوالات اور شبھات پیش کیئے جاتے ہیں، لیکن چونکہ ’شق القمر‘ یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے معجزہ کی طرف قرآن کی آیت بھی اشارہ کرتی ہے کہ ’’ اقْترَبَتِ السَّاعَةُ وَ انشَقَّ الْقَمَر ‘‘[1]،  لھذا  اس معجزہ پر اتنے سوال نہیں اٹھتے  لیکن ’ردّ الشمس‘ یعنی سورج کا پلٹنے والا معجزہ، پر زیادہ سوالات ہوتے ہیں۔ اس ضرورت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کچھ عام طور سے پوچھے جانے والے سوالات کی جوابدہی کی غرض سے  قارئین کی خدمت میں یہ تحریر پیش کی جا رہی ہے،البتہ گذشتہ تحریر میں بھی چند اہم باتوں کی طرف اشارہ کیاگیا تھا، اْس تحریر کو مندرجہ ذیل [2] لینک کے ذریعہ مطالعہ کر سکتے ہیں۔
شبہات کے جوابات:

(پہلا سوال)مولا علی (علیہ السلام) نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کو نماز کے لیئے کیوں نہیں اٹھایا اور خود مولا علی (علیہ السلام) نے نماز عصر کی ادائگی میں دیر کیوں کی، ظہر کے ساتھ ہی کیوں نہیں پڑھی؟
(جواب) نماز بھی امر الھی ہے اور حالت وحی بھی امر الھی ہے اور  یہ دونوں (نماز اور وحی) خداوندعالم سے ارتباط کا ذریعہ ہیں ، اور نماز عصر کے وقت خداوندعالم کی طرف سے وحی کا نازل ہونا یقینا حکمت الھی سے خارج نہیں ہے۔ مولا (علیہ السلام)سے جب رسالتمآب(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سوال کیا کہ کیا آپ نے نمار پڑھی تو جواب میں  حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا[لمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أُصَلِّيَهَا قَائِماً لِمَكَانِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ الْحَالُ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا فِي اسْتِمَاعِ الْوَحْي‏]’’یا  رسول اللہ(ص) میں کھڑے ہو کر نماز ادا نہیں کرسکا آپ کے مقام و منزلت کی وجہ سے اور یہ کہ آپ پر اس وقت وحی کا نزول ہو رہا تھا‘‘[3]۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ مولائے کائنات رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اس حالت وحی میں پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے اور دریافت وحی میں خلل ایجاد نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا بعد میں یہ فرمانا کہ:[أَنَّ النَّبِيَّ ص قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ عَلِيّاً كَانَ فِي طَاعَتِكَ وَ طَاعَةِ رَسُولِكَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْس‏...]
’’بارے الہا ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت کر رہے تھے، انکے لیئے سورج کو پلٹا دے۔۔۔‘‘[4] اس دعائیہ جملہ سے واضح ہے کہ جو  مولا علی(علیہ السلام) نے کیا وہ اللہ جل جلالہ اور رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مرضی کے مطابق تھا۔
یہ مسلّم ہے کہ ائمہ (علیہم السلام) ہر کام میں وقتِ فضیلت کا خیال رکھتے تھے اور فقہ جعفری کے مطابق بھی ہر نماز کو اسکے خاص وقت میں ادا کرنا مستحب ہے لھذا نماز ظہر کے بعد اتنا رکا جائے کہ نماز عصر کا وقت داخل ہو جائے، ممکن ہے یہی وجہ رہی ہو گی کہ مولا نے نماز عصر کو ظہر کے ساتھ ادا نہیں کیا[5]۔
(دوسرا سوال) کیسے ممکن ہے کہ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی نماز قضا ہو جائے اور بعد میں نماز ادا کرنے کے لیئے سورج پلٹایا جائے؟
(جواب)اگر روایت کو غور سے پڑھا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مولا (علیہ السلام)کی نماز قضا نہیں ہوئی بلکہ آپ نے بیٹھ کر نماز ادا کی۔ روایت میں ملتا ہے کہ: [...لِذَلِكَ‏ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ جَالِساً يُومِئُ بِرُكُوعِهِ وَ سُجُودِهِ إِيمَاء...][6] ’’اسلیئے مولا نے نماز عصر بیٹھ کر پڑھی اور اشاروں سے رکوع اور سجود کو انجام دیا ‘‘
دوسری جگہ روایت میں ملتا ہے کہ مولا (علیہ السلام) نے فرمایا [قَالَ لَهُ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أُصَلِّيَهَا قَائِماً …حَتَّى تُصَلِّيَهَا قَائِماً فِي وَقْتِهَا] ’’میں کھڑے ہو کر (تمام آداب کے ساتھ) نماز ادا نہیں کرسکا کیوں کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی تھی،(یہ بات سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا کہ )آپ دعا کیجیئے تاکہ سورج پلٹ آئے اور آپ کھڑے ہو کر وقت پر نماز ادا کر سکیں ‘‘[7]
لھذا مولا علی (علیہ السلام) کی نماز قضا نہیں ہوئی اور سورج اس لیئے پلٹایا تھا تاکہ نماز کو وقت پر کھڑے ہو کر ادا کر سکیں۔
(تیسرا سوال) اس ترقی یافتہ زمانہ میں یہ کہنا کہ سورج پلٹایا گیا، بے معنا ہے جبکہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ نظام شمسی میں سورج کے گرد سیارہ گھومتے ہیں اور سورج اپنی جگہ ثابت ہے۔
(جواب) یہ عبارت کہ ’سورج پلٹایا گیا‘ عرفی طرز بیان ہے، آج بھی عرف عام میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’سورج ڈوب گیا‘ یا ’سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں ڈوبتا ہے‘۔ لھذا  ’ردّ الشمس ‘ کہنا عرف عام کے مطابق ہے اور بے معنا نہیں ہے۔
کچھ علماء نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ علوم طبیعیات کے مطابق سورج اور زمین کے فاصلہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سورج کی روشنی، زمیں تک سات منٹ تاخیر سے پہنچتی ہے، یعنی جب سورج واقعا افق پر آچکا ہوتا ہے تو اسکے ۷ منٹ بعد ہمکو نظر آتا ہے کہ اب افق پر سورج آیا ہے اور جب سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے تو اسکے ۷ منٹ بعد ہم دیکھتے ہیں کہ غروب ہوا ہے، اس نظم کے مطابق ممکن ہے کہ خداوند عالم کی قدرت لازوال سے نور کی سرعت میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہو یا سورج کے نور کی تابش کا زاویہ بدل گیا ہو، اور فقہی قاعدہ کے لحاظ سے سورج کا آنکھ سے نظر آنا ملاک و معیار ہے نہ کہ اسکا حقیقی مقام۔
البتہ یہ بات بعید نہیں ہے کہ خالق کائنات جس طرح سے اپنی قدرت مطلقہ کے ذریعہ چاند کے دو ٹکڑے کر سکتا ہے  وہی خدا اپنی غیر قابل ادراک قدرت سے سورج کو بھی اپنی جگہ سے ہلا سکتا ہے۔
(چوتھا سوال) کیسے ممکن ہے کہ اتنا بڑا واقعہ نظام شمسی مین رو نما ہو جائے اور کوئی اسے محسوس نہ کر پائے، اگر دوسرے لوگوں نے دیکھا ہوتا تو ہر مذہب و ملت کی تاریخ میں یہ واقعہ درج ہوتا۔
(جواب) تاریخی اسناد اور روایات کے مطابق مدینہ میں بہت سے لوگوں نے اس معجزہ کو دیکھا اور دوسری دفعہ جب سورج پلٹایا تو  مولائے کائنات(علیہ السلام) کے ساتھ جو لوگ موجود تھے وہ بھی اس واقعہ کے عینی شاید تھے[8] ۔
لوگوں کی توجہ اس معجزہ کی طرف مبذول نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ معجزہ، نماز  استسقاء(نماز باران) کی طرح لوگوں کو جمع کر کہ انجام نہیں دیا گیا کہ لوگ آسمان کی طرف نگاہیں جمائے اس معجزہ  کے انتظار میں بیٹھے رہتے بلکہ  یکبارگی اور اضطرار کی حالت میں انجام دیا گیا اور  اس کرامت کی کیفیت اور حالات کو پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ یہ کام اس زمانے کے تمام لوگوں کو دیکھانے کے لیئے انجام نہیں دیا گیا تھا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ جس وقت نماز عصر کے قضا ہونے کا وقت ہوجاتا ہے تو اسکے کچھ منٹ پہلے اور کچھ منٹ بعد تک آسمان کی روشنی اور رنگ میں بہت زیادہ چشمگیر تبدیلی نظر نہیں آتی اور قابل محسوس نہیں ہوتی بلکہ جب پوری طرح سورج غروب ہو جاتا ہے اس وقت آسمان کا رنگ بدلتا ہے، لھذا لوگون نے توجہ نہیں دی۔
فقہی احکام کے مطابق اگر کوئی ایک رکعت بھی نماز کے وقت میں ادا کی جائے تو گویا پوری نماز وقت پر ادا ہوئی اور حالت اضطرار میں چار رکعت نماز ادا کرنے کے لیئے چند منٹوں سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہوتی،اب اگر فقظ بہت ہی مختصر اور کم وقت کے لیئے سورج دوبارہ پلٹے تو یہ ہر ایک کے لیئے قابل محسّوس نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ سورج اور آسمان کی طرف نگاہیں جمائے اس واقعہ کا منتظر ہو (جیسا کہ کچھ اصحاب منتظر تھے) یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس وقت اکثر جگہوں پر یا تو رات ہو چکی اور اندھیرا چھا چکا تھا یا  ابھی دن کا اجالا تھا لھذا دوسرے شہروں اور ممالک کے لوگوں نے اس معجزہ کو محسوس نہیں کیا اور اپنی تاریخ میں درج نہیں کیا۔
(پانچواں سوال) ’ردّ الشمس‘ کی روایت، دوسری روایت سے تعارض رکھتی ہے کیونکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  کی ایک معتبر روایت کے مطابق، جسمیں آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا[عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: انّ الشمس لم تحبس علی احد الا لیوشع] [9]’’سورج کسی بشر کے لیئے نہیں رکا مگر یوشع کے لیئے کہ جو بیت المقدس کی طرف سفر کر رہے تھے‘‘یہ مولا علی (علیہ السلام) کے لیئے سورج پلٹنے کے ساتھ تعارض رکھتی ہے۔
(جواب) اس روایت میں جناب یوشع کے لیئے سورج کے رک جانے اور توقف کرنے کی بات ہے اور مولا کے لیئے سورج رکا نہیں بلکہ پلٹ گیا تھا اس کے علاوہ حدیث اس بات کی نفی کر رہی ہے کہ گذشتہ امتوں میں سورج کسی کے لیئے نہیں رکا  اور فقط جناب یوشع کے لیئے رکا لیکن آئندہ میں یہ کارنامہ ہو گا یا نہیں اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔ لھذا ان دو احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ ’ردّ الشمس‘اور’حبس الشمس‘ میں فرق ہے۔
نتیجہ:
 ان باتوں سے اطمینان اور یقین پیدا ہوتا ہے کہ یہ معجزہ رونما ہوا تھا اور اس میں کوئی عقلی اور وقوعی امتناع نہیں ہے۔ اس مقالہ کے اختصار کا لحاظ کرتے ہوئے ان چند اہم جوابات پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

[1]  قیامت قریب آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے اور یہ کوئی بھی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک مسلسل جادو ہے (سورہ قمر آیۃ ۱ ، ۲)
[2] http://www.welayatnet.com/ur/news/95744
[3] مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ج ۴۱ صفحہ ۱۷۴- بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
[4] مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار (ط - بيروت) ج ۴۱ صفحہ ۱۷۴- بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
[5] البتہ یہ بات واضح رہے کہ رسول اکرم اور ائمہ اطہار(علیہم السلام) نے نماز ظہر اور عصر اور نماز مغرب اور عشا کو بنا عذرکے ملا کر بھی پڑھا ہے۔اس بات کو ’جواز جمع بین الصلاتین‘ کی بحث میں دیکھا جا سکتا ہے۔
[6] الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،شیخ مفید، ج‏1، ص: 346
[7] الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،شیخ مفید، ج‏1، ص: 346
[8] واقعہ کی تفصیل کے لیئے اس سے پہلے والا مقالہ اس لینک پر دیکھئے http://www.welayatnet.com/ur/news/95744
[9] البداية والنهاية، ابن كثير الدمشقي، ج 6 ص 87 (iShiaBooks)

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
10 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39