خلاصہ: اس تحریر میں مختصر طور پر اہل تسنن کے چار اہم مکاتب کے امام اور انکا امام صادق (علیہ السلام) کے شاگرد ہونے کا تذکرہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سن۱۳۰ ہجری کے قریب، حکومت اسلامی کی سیاسی کشمکش اپنے شباب پر تھی، بنی امیہ کی حکومت کا زوال اور بنی عباس کا سیاسی عروج تاریخ اسلام میں ایک نیا موڑ تھا، اور آخر کار ۱۳۲ ہجری میں سفاح نامی بنی عباس کا پہلا خلیفہ برسر اقتدار آیا۔ اس سیاسی اور اقتدار کی لڑائی میں ظالم حکمرانوں کی توجہ خاندان اہل بیت (علیہم السلام)کی طرف نہیں رہی اور تقریبا یہی وہ زمانہ تھا کہ جس میں امام باقر اور امام صادق (علیہما السلام) کو فرصت ملی لہذا معارف اسلامی کو ہر ممکنہ طریقہ سے اپنی حیات کے آخری لمحہ تک (سن ۱۴۸ ھق) نشر کیا۔
امام صادق (علیہ السلام) نے بہت زیادہ تعداد میں شاگرد پروری کی اور یہی وجہ تھی کہ امام صادق(علیہ السلام) کے شاگرد جو مختلف علوم و فنون میں ماہر تھے دنیا بھر مین پھیل گئے۔ مختلف فرقوں اور مذاہب کے دانشور افراد، امام (علیہ السلام) کے سامنے زانوئے ادب طی کرنا اپنے لیئے باعث افتخار سمجھتے تھے اور بر بانگ دہل اپنی شاگردی کا اعلان کرتے تھے۔ شیخ مفید فرماتے ہیں کہ امام صادق (علیہ السلام) کے شاگردوں کی فہرست میں چار ہزار شاگرد شامل ہیں[1] [فَإِنَّ أَصْحَابَ الْحَدِيثِ قَدْ جَمَعُوا أَسْمَاءَ الرُّوَاةِ عَنْهُ مِنَ الثِّقَاتِ عَلَى اخْتِلَافِهِمْ فِي الْآرَاءِ وَ الْمَقَالاتِ فَكَانُوا أَرْبَعَةَ آلَافِ رَجُل][2]۔
انہیں شاگردوں میں سے اہل تسنن کے چار اہم امام بھی ہیں ان مین سے دو براہ راست اور دو بالواسطہ۔
اہل تسنن کے چار اہم مکتب حنفی،مالکی،شافعی اور حنبلی:
۱۔ابو حنیفہ:
نعمان بن ثابت جو ابو حنیفہ کی کنیت سے معروف ہیں، حنفی مکتب کے امام ہیں۔ یہ امام صادق (علیہ السلام) کے براہ راست شاگردوں میں سے ہیں۔
تاریخی کتب مین ملتا ہے کہ ابوحنیفہ کی امام صادق (علیہ السلام) سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں[3]،حتی منصور دوانیقی کے کہنے پر ابوحنیفہ نے امام(علیہ السلام)کے لیئے چالیس مشکل سوال تیار کیئے[4]۔
علماء اہل تسنن کے نزدیک ابوحنیفہ امام صادق (علیہ السلام) کے معروف ترین شاگرد تھے[5]، اسی شاگردی کی بنا پر ابوحنیفہ کہتے ہیں:’’میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ دانشنمد شخص نہیں دیکھا ‘‘[6]
نعمان بن ثابت عرف ابو حنیفہ نے دو سال امام صادق (علیہ السلام) سے کسب فیض کیا، بنابریں انکا مشہور قول ہے کہ انہوں نے فرمایا[لو لا السّنتان لهلک النّعمان][7]’’اگر یہ دو سال(امام کی شاگردی) کے نہ ہوتے تو نعمان(ابوحنیفہ) ہلاک ہو جاتا‘‘
انکی وفات سن ۱۵۰ ھق میں ہوئی۔
۲۔مالک بن انس:
اہل تسنن کے مذاہب اربعہ میں سے مالک بن اسد مدنی، مالکی مکتب کے امام ہیں۔انکی وفات ۱۷۹ھق میں ہوئی۔ مالک بن انس مدینہ کے رہنے والے تھے اور امام صادق (علیہ السلام)سے مسلسل ملنے کے لیئے انکے پاس جاتے تھے[8]۔مختلف علماء رجال وغیرہ نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ مالک، امام صادق (علیہ السلام) کے براہ راست شاگرد تھے[9]۔
مالکی مذہب کے امام، انس بن مالک کہتے ہیں:[...ولایتکلّم بمالایعینه و کان من العلماء العباد و الزهاد الذین یخشون اللّه... و ما رات عین و لا سمعت اذن ولاخطر علی قلب بشرٍ افضل من جعفر بن محمد الصادق علماً و عبادةً و ورعاً...]’’ایک مدت تک میں جعفر بن محمد (ع) کے پاس آتا جاتا رہا اور انکو کبھی بھی تین حالتوں سے خالی نہیں دیکھا یا نماز پڑھتے رہتے تھے یا روزہ کی حالت میں رہتے تھے یا قرآن پڑھا کرتے تھے اور کبھی بھی انکو بغیر وضو کے حدیث نقل کرتے نہیں دیکھا۔ علم و عبادت و تقوے کے لحاظ سے جعفر بن محمد کی مانند نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا‘‘[10]
۳۔ ابوعبدالله محمد بن ادريس المعروف بامام شافعی:
شافعی مسلک کے پیروکاروں کے امام، ابوعبدالله محمد بن ادريس ہیں کہ جو امام شافعی کے نام سے معروف ہیں، انکی ولادت امام صادق (علیہ السلام)کی شھادت کے بعد سن ۱۵۰ ہجری میں ہوئی اور انکی تاریخ وفات ۲۰۴ ھ ہے۔ابو عبداللہ شافعی، امام صادق (علیہ السلام) کے با واسطہ شاگرد تھے، انہوں نے چار سال مالک بن انس کی شاگردی کی اور امام صادق (علیہ السلام) کے دیگر معروف شاگردوں کے درس میں بھی شرکت کی جیسے ابراہیم بن اسد انصاری اورعبد الوھاب بن عبد المجید[11]۔
۴۔ عِزُّ الدِّين أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حَنْبَل:
حنبلی مذہب کے پیروکاروں کے امام احمد بن حنبل ہیں۔ یہ محمد بن ادریس شافعی کے براہ راست شاگرد ہیں کیونکہ انکی ولادت سن ۱۶۴ میں امام صادق (علیہ السلام) کی شھادت کے بعد ہوئی لھذا یہ امام صادق (علیہ السلام) کے با واسطہ شاگرد ہیں۔ احمد بن حنبل نے اپنی علمی مسافرتوں میں امام صادق (علیہ السلام) کے متعدد شاگردوں کی شاگردی کی اور جس زمانہ میں محمدشافعی بغداد میں زندگی بسر کر رہے تھے اس زمانے میں احمد بن حنبل نے انکی شاگردی اختیار کی[12]۔اگر چہ محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل نے امام صادق (علیہ السلام) کے محضر مبارک کو درک نہیں کیا لیکن امام (علیہ السلام) کے فضل و کمال کے قائل تھے اور امام (علیہ السلام) سے متعدد روایات نقل کی ہیں۔
نتیجہ:
حجۃ الاسلام و المسلمین آقای قرائتی کا سنی حضرات کے سامنے مشہور انٹرویو کہ جو فارسی میں’’ اثبات حقانیت شیعه در یک دقیقه با سه آیه قرآن ‘‘[13] کے عنوان سے مشہور ہے، اسکو نتیجہ کے طور پر یہان ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا۔
آقای قرائتی کچھ اس طرح عام فہم استدلال کرتے ہیں:
(مقدمہ)
جب تک پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) زندہ تھے سنی شیعہ کی کوئی بات نہیں کرتا تھا اور سب کے راہنما آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔
پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہم شیعوں نے اپنی فقہ اہلبیت پیغمبر(علیہم السلام) سے لی اور سنیوں نے اپنی فقہ کو دوسرے چار اماموں سے لیا، ابو حنیفہ، امام مالکی، امام شافعی اور امام حنبل سے۔
ہم نے اپنی فقہ کو اہلبیت رسول(علیہم السلام) سے لیا ہے اسکے لیئے تین آیات ہیں:
(پہلی بات) جب قرآن، اہلبیت (علیہم السلام) کے بارے میں کلمہ ’’اہلبیت‘‘ کے ذریعہ بات شروع کرتا ہے تو فرماتا ہے [وَ يُطَهِّرَكمُْ تَطْهِيرً][14]۔’یطھرکم‘ یعنی معصوم ہیں اور کسی نے نہیں کہا ’یطھرکم‘ ابو حنیفہ یا شافی کے لیئے ہے،نہ شیعوں نے کہا نہ سنیوں نے۔
(دوسری بات) یہ کہ اہلبیت (علیہم السلام) ہجرت کی پہلی صدی میں تھے لیکن سنیوں کے چار امام یعنی ابوحنیفہ، شافعی، مالکی اور حنبلی دوسری صدی ہجری کے تھے۔ اہلبیت (علیہم السلام) انسے ایک صدی آگے ہیں۔
قرآن فرماتا ہے:[ وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُوْلَئكَ الْمُقَرَّبُون][15]
(تیسری بات) یہ کہ تمام اہلبیت رسول (علیہم السلام) شہید ہوئے لیکن کسی بھی سنی عالم نے اسلام کے لیئے، ایک طماچہ بھی نہیں کہایا۔
قرآن فرماتا ہے[وَ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلىَ الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمً][16]
ہمارے شیعہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ:
اول: ہم نے اپنی فقہ اہلبیت(علیہم السلام) سے لی کیونکہ معصوم ہیں[يُطَهِّرَكمُْ تَطْهِيرً]
دوم: اہلبیت (علیہم السلام) ایک صدی آگے ہیں [السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ]
سوم: تمام اہلبیت (علیہم السلام) شہید ہوئے[قُتِلُوا في سَبيلِ اللَّہ] [فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلىَ الْقَاعِدِينَ]
آپ اہل سنت حضرات اگر ایک آیت لا سکتے ہوں تو لا کر دیکھاو کہ آپ نے اپنا دیں ابو حنیفہ سے کیون لیا؟
وَ السَّلامُ عَلى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] چار ہزار شاگرد سے مراد یہ نہیں کہ بیک وقت یہ تمام افراد امام سے روز مرہ آکر کسب فیض کرتے تھے، بلکہ وقت کے گزرتے لوگ بلا واسطہ امام کی تعلیمات سے فیضیاب ہوتے اور امام سے احادیث نقل کرتے رہتے۔
[2] الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،شیخ مفید، ج2، ص: 179
[3] حِلیةُ الأولیاء و طَبَقاتُ الأصفیاء ، ابونُعَیمِ اصفهانی، ج3، ص197
[4] مناقب، ابن شهر آشوب، ج4، ص255
[5] اس بات کو شبلنجی نے نورالابصار میں، ابن حجر نے صواعق میں، شیخ سلیمان نے ینابیع المودة میں، ابن صبّاغ نے فصول میں ، اور آلوسی نے مختصر التحفة الاثنی عشریه میں بیان کیا ہے۔
[6] تذکرة الحفاظ،ذهبی، داراحیاء التراث العربی،ج 1: 166ص.
[7] اعلام الهدایه، ج 8، ص 229.
[8] خصال، صدوق، ص184اور مناقب،ابن شهر آشوب، ج4، ص275
[9] نووی نے تهذیب میں، شبلنجی نے نورالابصارمیں ، سبط جوزی نے تذکرة میں ، شافعی نے مطالب میں ، ابن حجر نے صواعق میں ، شیخ سلیمان نے ینابیع المودة میں اور ابونعیم نے حلیه میں
[10] الامام الصادق و المذاهب الاربعه، اسد حیدر، ج1:ص 54.
[11] الامام الصادق و المذاهب الاربعه،اسدحيدر، ج2، ص176-186
[12] الامام الصادق و المذاهب الاربعه، اسد حیدر،ج2، ص454
[13] ’’ایک منٹ میں شیعوں کی حقانیت‘‘ ۔ یہ انٹرویو ویڈیو کلیپ اور تحریری صورت میں انٹرنت پر بآسانی دستیاب ہے۔
[14] إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكمُْ تَطْهِيرً(بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے) سورہ احزاب آیۃ ۳۳
[15] اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں وہی اللہ کی بارگاہ کے مقرب ہیں۔ سورہ واقعہ آیۃ ۱۰ اور ۱۱
[16] اللہ نے بیٹھے رہنے والوں کے مقابلے میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ زیادہ رکھا ہے ۔ سورۃ نساء آیۃ ۹۵
Add new comment