عظمت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ایک جھلک

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) وہ باعظمت خاتون ہیں جن کی عصمت، علم و دانائی اور فضائل و کمالات کے واضح ثبوت پائے جاتے ہیں، اہل بیت (علیہم السلام) کی زبانی آپ کے فضائل کا بیان ہونا، آپ کے بلند مقام اور عظیم کمالات کی نشاندہی کرتا ہے۔

عظمت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی ایک جھلک

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عصمت کا چاند حلقہ امامت کے درمیان
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) شہر مدینہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد ساتویں امام، حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) اور والدہ جناب نجمہ خاتون، آٹھویں امام حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کی والدہ گرامی ہیں، آپؑ نویں امام حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی پھوپھو ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپؐ کا تین طرف سے ائمہ طاہرین (علیہم السلام) سے رشتہ ہے، امام کی بیٹی، امام کی بہن اور امام کی پھوپھی۔
آپ ابتدا ہی سے ایسے ماحول میں پرورش پائیں جس میں ماں باپ، بھائی اور بھتیجا سب اخلاقی اقدار سے مزین تھے۔ عبادت، زہد، تقوا، صداقت، صبر، مشکلات کو برداشت کرنا، لوگوں کو عطا کرنا اور اللہ کو یاد کرنا، اس پاک سیرت خاندان کی عظیم صفات میں سے ہیں۔ اِس خاندان کے آباء و اجداد، ہدایت کرنےکے لئے منتخب پیشوا اور امامت کے جگمگاتے ہوئے گوہر اور انسانیت کی کشتی کے سربراہ ہیں۔ اب ایسے نیک کردار اور باکمال خاندان میں تربیت یافتہ خاتون کا مقام کتنا بلند ہونا چاہیے جس کا دامن علم و طہارت،زہد وعبادت اور تقوا و صداقت سے لبریز ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) میں سے کئی ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے اپنے بیانات عالیہ کے ساتھ اس مخدرہ کی عظمت و منزلت کی نشاندہی کردی ہے۔

مقام عصمت پر فائز
عصمت، معصوم شخص میں ایسی کیفیت کو کہا جاتا ہے جو اسے گناہ اور غلطی سے روکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معصوم ہستیوں کو ایسا علم عطا فرمایا ہے جس کے سبب، وہ گناہ اور غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے، لہذا معصوم ہستیوں سے کسی قسم کا گناہ سرزد نہیں ہوتا نہ صغیرہ نہ کبیرہ۔ چونکہ عصمت علم پر مبنی ہے تو انسان کے اختیار اور ارادہ کے منافی نہیں ہے۔[1]
آپؑ کو "معصومہ" کا لقب آپؑ کے بھائی آٹھویں امام حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے عطا فرمایا۔ جس روایت میں آنحضرتؑ نے فرمایا: "مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى"[2]، "جو شخص معصومہ کی قم میں زیارت کرے، اس شخص کی طرح ہے جس نے میری زیارت کی"۔
آپؑ کو حجت خدا اور خلیفہ الٰہی نے "معصومہ" کا لقب دیا ہے، اس فرمان سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ آپؑ مقام عصمت پر فائز ہیں۔

حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) علم کا سرچشمہ
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ایسے خاندان میں تربیت پائیں جو علم، تقوا اور اخلاقی اقدار کا سرچشمہ تھا۔ آپؑ عالم تشیع کی باعظمت خاتون ہیں اور آپؑ عظیم علمی مقام کی مالک ہیں ہے۔
نقل ہوا ہے کہ ایک دن کچھ شیعہ لوگ، حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ملاقات اور آنحضرتؑ سے کچھ سوالات دریافت کرنے کے لئے مدینہ منورہ میں آئے۔ مگر کیونکہ حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) سفر پر تشریف لے گئے تھے، انہوں نے اپنے سوالات حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کو دیے جو اس وقت چند سالہ بچی تھیں۔ وہ لوگ دوسرے دن امامؑ کے گھر آئے، لیکن ابھی تک آنحضرتؑ سفر سے واپس نہیں پلٹے تھے تو انہوں نے اپنے سوالات واپس لینا چاہا تا کہ اگلے سفر میں امامؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوں، اس بات سے غافل کہ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے ان کے سوالات کے جواب تحریر فرما دیے ہیں، جب انہوں نے جوابات دیکھے تو بہت خوش ہوئے اور بہت شکریہ ادا کرتے ہوئے مدینہ سے چلے گئے۔ راستہ میں ان کی حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی، اپنا قصہ بیان کیا، جب آنحضرتؑ نے سوالات کے جوابوں کا مطالعہ فرمایا تو تین بار ارشاد فرمایا: "فداھا ابوھا"، فاطمہ معصومہ پر ان کے والد فدا ہوں[3]۔

فضائل و کمالات کی بلندی
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) فضائل و کمالات کی بلندی پر فائز ہیں۔ اہل بیت (علیہم السلام) عظیم فضائل اور بلند مقامات کی آپؑ سے نسبت دیتے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "إِنَّ لِلَّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَكَّةُ أَلَا إِنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِينَةُ أَلَا وَ إِنَّ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَرَماً وَ هُوَ الْكُوفَةُ أَلَا وَ إِنَّ قُمَّ الْكُوفَةُ الصَّغِيرَةُ أَلَا إِنَّ لِلْجَنَّةِ ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا إِلَى قُمَّ تُقْبَضُ فِيهَا امْرَأَةٌ مِنْ وُلْدِي اسْمُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ مُوسَى وَ تُدْخَلُ بِشَفَاعَتِهَا شِيعَتِي الْجَنَّةَ بِأَجْمَعِهِمْ"[4]"یقیناً اللہ کا ایک حرم ہے جو مکہ ہے، جان لو کہ رسول اللہ ؐ کا ایک حرم ہے جو مدینہ ہے، اور جان لو کہ حضرت امیرالمومنینؑ کا ایک حرم ہے جو کوفہ ہے، جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے تین قم کی طرف ہیں، اس (شہر) میں میری اولاد میں سے ایک خاتون کی روح قبض ہوگی اس کا نام فاطمہ بنت موسی ہوگا اور اس کی شفاعت سے میرے سب شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔

زیارت کی فضیلت
دعا اور زیارت، پیاسے انسان کے لئے خالص معنویت کا صاف جام ہے اور حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے حرم کی زیارت، زمانہ کی دھندلی فضا میں امید کی کرن، غفلت کی حالت میں فرسودہ روح کی فریاد اور جنت کے باغوں سے اٹھتا ہوا خوشحال کرنے والا ہوا  کا جھونکا ہے۔ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے مقدس روضہ کی زیارت انسان کو مایوسی کے بھنور میں ڈوبنے سے بچاتی ہے اور اس سے مزید جدّ و جہد کرنے کا ہمت بڑھتی ہے۔ کریمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے مزار کی زیارت باعث بنتی ہے کہ حرم کا زائر اپنے آپ کو اللہ کا محتاج سمجھے، تکبر اور غرور کی سواری سے اتر کر اللہ کی بارگاہ قدسی میں حالت خضوع و خشوع اختیار کرے اور حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کو رب العالمین کی بارگاہ اقدس میں واسطہ بنائے۔آپؑ کی زیارت کے لئے بڑے عظیم ثواب کا وعدہ دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں حضرت امام علی رضا (علیہ السلام)  فرماتے ہیں: "مَنْ زَارَهَا فَلَهُ الْجَنَّةُ"[5]، "جو شخص حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی زیارت کرے، اس کے لئے جنت ہے"۔
نیز حضرت امام جواد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَّتِي بِقُمَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ"[6]، "جو شخص میری پھوپھی کی قم میں زیارت کرے، اس کے لئے جنت ہے"۔

نتیجہ: اہل بیت (علیہم السلام) کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان حضرات ہی کی برکت سے ان کے بعض فرزند عظیم مقام و منزلت کے حامل ہو جاتے ہیں، ان میں سے ایک حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ہیں، جنہیں آٹھویں امام کے فرمان کے مطابق عصمت کے مقام پر فائز ہونے کا شرف حاصل ہے، آپ کا باپ کی عدم موجودگی میں شیعوں کے سوالوں کا جواب دینا اور باپ جو ساتویں امام ہیں، ان کی تائید کا حاصل ہونا، آپ کے علمی بلند مقام کا بولتا ہوا ثبوت ہے، ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے آپ کی زیارت کا ثواب جنت اور آپ کو جنت کے لئے شفیع قرار دیتے ہوئے آپ کی بلند شان و عظمت کی نشاندہی کردی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] تفسیر المیزان،ج11،ص162۔
[2] ناسخ التواريخ، ج3، ص 68، كريمه اهل بيت، ص 32 سے منقول۔
[3] کریمہ اہل البیت، ص 64،63۔
[4] بحارالانوار، ج 57، ص 228، ح 59۔
[5] عیون اخبار الرضا ج 2 ، ص 267۔
[6] کامل الزیارات ص 324۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 53