حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے بعض فضائل و کمالات

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: والدین کی تربیت کے علاوہ اللہ کے عطاکردہ کمالات اور توفیقات انسان کی ترقی و کمال میں اثرانداز ہوتی ہیں، آپ کو جو خدا نے کمالات عطا کیے ہیں ان کے ساتھ ساتھ آپ کی پاکدامی، دین کے لئے جد و جہد اور ولایت سے دفاع آپ کے کردار کے بہترین نمونے ہیں۔ آپ کی عظمت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض ائمہ اطہار (علیہم السلام) نے آپ کے  فضائل بیان فرمائے ہیں۔

حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے بعض فضائل و کمالات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والدین کے کردار کا اولاد پر اثر
یقیناً ماں باپ کے ایمان و عمل اور کردار و افکار کا اولاد کے کردار پر گہرا اثر ہوتا ہے، اگر ماں باپ، اللہ تعالی کی عبادت، اطاعت اور فرمانبرداری میں کوشاں ہوں اور گناہوں، برائیوں اور اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کریں تو اس کا اولاد کے ایمان و عمل میں ایسا اثر و رسوخ ہوتا ہے کہ اولاد ماں باپ کے کردار کے بل بوتہ پر اور خود تقوائے الہی اختیار کرتے ہوئے، اللہ کی توفیقات کے ذریعے منزل مقصود اور رضائے الہی کے رتبے پر پہنچ جاتی ہے۔ نیز والدین، بہن بھائی اور گھرانے کے دیگر افراد کی تربیت کا انسان پر ایسا اثر ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں آدمی کا وجود بابرکت، بات حکمت آمیز، ایمان محکم اور عمل نیک بن جاتا ہے، ایسا آدمی جس ماحول میں داخل ہوگا وہاں کو شاداب اور دلوں کو بیدار کردے گا اور اندھیرے کو روشنی میں، کانٹوں کو پھول میں اور حیوانی اغراض کو انسانی بلند کمالات میں بدل دے گا۔ اس کی ایک ایک بات لوگوں کے لئے قیمتی گوہر، اس کا ہر عمل انسانوں کے لئے نمونہ اور اس کا حکم مومنین کے لئے معیار قرار پائے گا۔ وہ زندہ رہ کر لوگوں کو ہدایت کے راستے پر گامزن کردے گا اور اپنی حیات کے بعد بھی انسانی دنیا کے لئے ہدایت کا ایسا دروازہ ہوگا کہ جو اس کے روضہ پر آئے، ہدایت پروردگار اور تقوائے الہی کے موتیوں سے اپنا دامن بھر کر واپس لوٹے گا۔
ایسی شخصیات میں سے ایک عظیم ہستی حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ہیں جو ساتویں امام، باب الحوائج حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) اور جناب نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) کی بیٹی، آٹھویں امام، ثامن الحجج حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی بہن اور نویں امام، جوادالائمہ حضرت محمد تقی (علیہ السلام) کی پھوپھی ہیں اور خود صاحب مقام شفاعت ہیں۔
آپ کے والد ساتویں امام ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عصمت، علم، اخلاق اور دیگر صفات حسنہ کے وارث ہیں، آپ کی والدہ بھی ہر طرح کے گناہ اور آلودگی سے دور تھیں اور طہارت کے مقام فائز تھیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ جناب نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی والدہ ہیں اور امام کی والدہ ہر طرح کے گناہ سے پاک و مطہر ہوتی ہے، لہذا آنحضرت کی والدہ مطہرہ ہیں، اور کیونکہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) اور حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی والدہ جناب نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) ہیں تو معلوم ہوگیا کہ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی والدہ ماجدہ بھی مطہرہ ہیں۔

آپ کے القاب
معصومه، طاهره، حمیده، بِرّه، رشیده، تقیه، نقیه، رضیه، مرضیه، سیده، اُخت الرضا، آپ کے القاب میں سے ہیں۔[1]
معصومہ: حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: " من زار المعصومة بقم كمن زارنی"[2]،"جو شخص معصومہ کی قم میں زیارت کرے اس شخص کی طرح ہے جس نے میری زیارت کی"۔
کریمہ اہل بیت: حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا) کریمہ اہل بیت کے لقب سے مشہور ہیں، ظاہراً اس لقب کی سند وہ خواب ہے جو جناب سید محمود مرعشی نجفی نے دیکھا اور اس خواب میں ائمہ اطہار (علیہم السلام) میں سے کسی ایک امام نے حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کو "کریمہ اہل بیت" کا لقب دیا اور جناب مرعشی نجفی کو آپ کی قبر کی زیارت کا حکم دیا۔

آپ کی بلند شخصیت
دینی مآخذ میں نقل ہوا ہے کہ حضرت موسی کاظم (علیہ السلام) کی فراوان اولاد میں سے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے بعد کوئی، حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کا ہم پلہ اور برابر نہیں ہے،[3] نیز مرحوم شیخ عباس قمی تحریر فرماتے ہیں: "حضرت موسی بن جعفر (علیہ السلام) کی بیٹیوں میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ، فاطمہ ہیں جو معصومہ کے نام سے مشہور ہیں"۔[4]

آپ عالمہ محدثہ ہیں
آپ کے فضائل و کمالات میں سے ایک، آپ کا علمی مقام ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت کا دفاع اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے حدیث غدیر اور حدیث منزلت (یا علی انت منی بمنزلۃ …) کو نقل کیا ہے اور آپ ان دو روایات کی راوی ہیں۔ آپ نے ان دو اہم حدیثوں کو امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی بیٹی فاطمہ سے اور انہوں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) کی بیٹی فاطمہ سے اور انہوں نے امام سجاد (علیہ السلام) کی بیٹی فاطمہ سے اور انہوں نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی بیٹی فاطمہ سے اور انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی بیٹی ام کلثوم سے نقل کیا ہے۔ حدیث غدیر کی تمام روایات میں یہ سلسلہ سند، روایت "فواطم" کے نام سے مشہور ہے۔ ان میں سے بعض کی مرحوم علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں استناد کی ہے، جیسے: " عن فاطمه بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی... : من کنت مولاه فعلی مولاه"۔[5]
آپ کی ایک اور روایت چند واسطوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچتی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: "الا من مات على حب آل محمد مات شهیدا"[6]، "جان لو! جو شخص آل محمد (ص) کی محبت کے ساتھ وفات پائے، شہید وفات پایا ہے"۔
آپ کی ایک اور روایت، روایت معراجیہ ہے جسے آپ نے کئی واسطوں سے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: " لما أسري بي الى السماء دخلت الجنة فاذا بقصر من درّة بيضاء مجوفة وعليها بابٌ مكلّل بالدّر والياقوت وعلى الباب ستر ، فرفعت رأسي فاذا مكتوب علي الباب: لا إله إلاّ الله محمد رسول الله عليّ وليَّ القوم ، واذا مكتوب على الستر : بخٍّ بخٍّ من مثل شيعة علي ، فدخلته فاذا أنا بقصر من عقيق أحمر مجوّف وعليه باب من فضة مكلّل بالزبرجد الأخضر واذا على الباب ستر فرفعت رأسي فاذا مكتوب على الباب : محمد رسول الله علي وصي المصطفى ، واذا على الستر مكتوب : بشِّر شيعة علي بطيب المولد ، فدخلته فاذا أنا بقصر من زمرد اخضر مجوف لم أر أحسن منه ، وعليه باب من ياقوتة حمراء مكلّلة باللؤلؤ، وعلى الباب ستر فرفعت رأسي فاذا مكتوب على الستر : شيعة علي هم الفائزون ، فقلت : حبيبي جبرئيل لمن هذا ؟ فقال : يا محمد هذا لابن عمِّك ووصيّك عليّ ابن أبي طالب (عليه السلام) يحشر الناس كلهم حفاة عراة الا شيعته ، ويدعى الناس بأسماء أمهاتهم ما خلا شيعة علي فانهم يدعون بأسماء آبائهم ، فقلتُ : حبيبي جبرئيل وكيف ذاك ؟ قال: لأنهم أحبّوا عليّاً فطاب مولدهم"[7]، "جب مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا تو میں جنت میں داخل ہوا، میں نے اچانک ایسے سفید موتی کی قصر دیکھی جو اندر سے خالی تھا اور اس قصر پر ایک دروازہ تھا جو در اور یاقوت سے مزین تھا اور اس دروازہ پر ایک پردہ تھا، پس میں نے اپنا سر اٹھایا دیکھا کہ اس دروازہ پر لکھا ہوا ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد، اللہ کے رسول ہیں، علی لوگوں کے سرپرست ہیں اور اس پردہ پر لکھا ہوا تھا: واہ واہ، علی (علیہ السلام) کے شیعہ جیسا کون ہے؟ پس میں قصر میں داخل ہوا، پھر ایک قصر دیکھا جو سرخ عقیق کا اندر سے خالی تھا، اس پر چاندی کا دروازہ تھا جو سبز زبرجد سے مزین تھا اور دروازہ پر ایک پردہ تھا، پس میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو دیکھا کہ اس دروازے پر لکھا ہے: محمد اللہ کے رسول ہیں، علی مصطفی کے وصی ہیں، اور پردہ پر لکھا ہوا تھا: "علی (ع) کے شیعہ کو نسل کی پاکیزگی کی مبارکباد ہو، میں اس میں داخل ہوا، پس میں نے سبز زمرد اندر کا ایک خالی قصر دیکھا جس سے بہتر میں نے نہیں دیکھا ہے، اور اس پر یاقوت سرخ کا ایک دروازہ تھا جو لولو سے مزین تھا، اور دروازہ پر ایک پردہ تھا، پس میں نے اپنا سر بلند کیا تو دیکھا کہ پردہ پر لکھا ہوا تھا: علی کے شیعہ کامیاب ہیں۔میں نے کہا: میرے حبیب جبریل! یہ قصر کس کا ہے؟ کہا: یا محمد! یہ قصر آپ کے چچازاد بھائی اور آپ کے وصی علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کا ہے۔ قیامت کے دن سب لوگ ننگے پاوں اور برہنہ محشور ہوں گے سوائے علی (ع) کے شیعوں کے، اور لوگوں کو ان کی ماووں کے نام سے پکارا جائے گا، سوائے علی (ع) کے شیعوں کے کہ انہیں ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا۔ میں نے کہا: اے میرے حبیب جبریل! ایسا کیوں ہے؟ کہا: چونکہ وہ علی (ع) سے محبت کرتے ہیں، لہذا ان کا نسب پاکیزہ ہے۔

ولایت کا دفاع
حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کی ولایت کا دفاع کرنے کے لئے اور آنحضرت کے حکم سے، قافلہ کے ساتھ مدینہ سے خراسان روانہ ہوئیں۔ اور قم میں رحلت پائیں اور قم میں ہی دفن ہوئیں۔ آپ نے جو سب سے بڑا درس دیا وہ یہ تھا کہ ہمیشہ ولایت اور اپنے ولی کا حامی و مددگار رہنا چاہیے۔

نتیجہ: حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) عظیم کمالات اور بلند مقامات پر فائز ہیں، آپ کا معصومین (علیہم السلام) سے رشتہ، اسم گرامی اور مختلف القاب سے مزین ہونا، عالمہ اور محدثہ ہونا اور ولایت کا دفاع، سب کے سب ایسے کمالات ہیں جن کا ایک فرد میں ملنا مشکل ہے۔ یہ کمالات اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ عصمت، علم اور عبودیت کے عظیم رتبہ پر تھیں۔ اور دوسری طرف سے ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے متعدد بیانات آپ کی شان میں اور آپ کی زیارت کے ثواب کے سلسلے میں آپ کے عطیم فضائل پر واضح دلیل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] انوار المشعشعین، ج1، ص211۔
[2] ریاحین الشریعه، ج 5، ص 35۔
[3] تواریخ النبی و الآل، ص65۔
[4] منتهی الآمال، ج2، ص378۔
[5] الغدیر، ج1، ص196۔
[6] گنجینه دانشمندان, ج1, ص16 و 17.
[7] ‏بحار الأنوار ج‏65، ص: 77۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
12 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 64