تحریر: سید محمد عباس شارب
اس مضمون میں محبت اور دوستی کو اسلامی تعلیمات کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔
محبت، الفت، دوستی، قربت، لگاؤ اور قلبی تعلق، یہ وہ الفاظ ہیں جن سے کم و بیش سبھی انسان اور خاص کر کے انسانیت کی مستقبل کی تاریخ کو رقم طراز کرنے والی جوان نسل، ان الفاظ کے مضمون سے آشنا اور آگاہ ہونے کا دعوا کرتی ہے۔ اسی محبت اور قلبی تعلق کی بنا پر بہت سے لوگ اپنے اندر مثبت تبدیلی ایجاد کرنے پر مجبور ہوئے اور اس کے نتیجہ میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے ہوئے نظر آئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی دوستی اور محبت کے سمندر نے نہ جانے کتنے افراد کو اپنی طوفانی اور طغیانی لہروں میں سمیٹ کر نابودی اور بربادی کے ساحل پر دفن بھی کیاہے۔
تو آخر یہ محبت اور دوستی ہے کیا؟ کیا یہ انسانیت کی عمارت کو تعمیر کرنے والی شئ ہے یا پھر اس کی تخریب اور ویرانی کی ذمہ دار؟ کیا ہمیں اپنی زندگی میں اس کو شامل کرنا چاہئے یا نہیں؟ دین مبین اسلام جو کہ انسانیت کو سنوارنے اور اسے ابدی حیات اور کامیابی تک پہونچانے کا ذمہ دار ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں مکمل رہنمائی پیش کرنے والا ہے، اس کا اس سلسلہ میں کیا نظریہ ہے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان الفاظ کی حقیقت کو سمجھ کر خود اپنی فکر اور عمل کی اصلاح کرتے ہوئے دیگر افراد ، خاص طور پر نوجوان نسل کی رہنمائی کے لئے مشعل راہ فراہم کر سکیں۔ ہم اس مضمون کی تنگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس موضوع سے متعلق کچھ باتوں کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
محبت ، اس رجحان اور احساس کا نام ہے جو کسی پسندیدہ اور لذت بخش شئ کے لئے انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے، اس معنی اور مفہوم کو سمجھانے کے لئے عربی لغت میں بہت سے نام معین کئے گئے ہیں(۱) اس سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ محبت، آئیڈیل معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس سلسلہ میں موجود روایات، اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ اسلام کی نظر میں ، مناسب انسانی معاشرہ، وہ معاشرہ ہے جو ایک دوسرے انسانوں سے محبت کی بنیاد پر قائم ہو۔ اسلام چاہتا ہے کہ معاشرے کو ایسا بنایا جائے جس میں لوگ اپنے کو،ایک دوسرے کا بھائی تصور کرتے ہوئے ایثار و قربانی کی حد تک ایک دوسرے سے محبت کریں، اور یقینا ایسا اس لئے ہے کہ کوئی بھی چیز، محبت کی مانند، انسان پسند معاشرے کی تشکیل میں کارآمد نہیں ہے(۲)۔
اسلام، انسان کے کمال تک پہونچنے کا مکمل لائحہ عمل ہے، اس پروگرام کا اہم عنصر، محبت ہے ۔ یہ محبت، انسانی معاشرے کے تکامل کے لئے اسلام کے پیش کردہ پروگرام پر اس قدر مؤثر ہے کہ امام محمد باقر (علیہ السلام)، دین کو محبت کے سوا، کچھ جانا ہی نہیں اور فرماتے ہیں: »هل الدين الاّ الحُبّ؟«کیا دین، محبت کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ (۳)۔
وہ خدا، جس نے لوگوں کو قرآن جیسا تحفہ دیا ، وہ خدا، خود مہربان اور لوگوں سے محبت کرنے والا ہے؛ وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ، اور اپنے پروردگار سے استغفار کرو اس کے بعد اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ کہ بیشک میرا پروردگار بہت مہربان اور محبت کرنے والا ہے (۴)، اس نے آئین اسلام کو، جو کہ تمام الہی انبیاء کا دین ہے، محبت کے ستون پر استوار کیا ہے(۵) اور دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کی اصل بنیاد کو، اسلام کے دینی اور سیاسی پیشواؤں اور رہنمائوں سے عشق و محبت کو قرار دیا ہے(۶)۔
اسلام کے بزرگ پیشوائوں نے محبت کو مختلف مقامات پر اچھے اور دلچسپ انداز میں کبھی راس العقل کہا تو کبھی اول العقل، اور کبھی نصف العقل کہہ کر لوگوں کو ایک دوسرے سے محبت، الفت اور دوستی کی طرف مایل کیا تاکہ لوگ ، محبت کی مٹھاس کے ذریعہ اپنی زندگی کو شیریں کر سکیں اور اس عظٰم الہی نعمت سے فیضیاب ہو سکیں چونکہ بسا اوقات، محبت اور دوستی کا رشتہ، نسبی اور سببی رشتہ سے زیادہ کارساز ہوتا نظر آتا ہے(۷)۔
دوستی اور محبت کہ اہمیت کا اندازہ، امیر المومنین(علیہ السلام) کی اسی روایت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں آپ نے فرمایا: إذا أكرَمَ اللّه ُ عَبدا شَغَلَهُ بِمَحَبَّتِهِ ؛ خداوند عالم جب کسی بندے کو عزت عطا کرتا ہے تو اس کے دل کو اپنی محبت میں مشغول کردیتا ہے(۸)۔
ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ محبت ایک بہت پاک و پاکیزہ شئ کا نام ہے جو نہ یہ کہ صرف انسان کو گمراہی اور ذلالت کی زندگی سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ انسان کی دنیاوی اور اخروی زندگی کو سنوارنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہوئے، انسانی زندگی کی عمارت کو تعمیر کرنے میں مثبت کردار ادا کرتی ہے لیکن اس مقام پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر انسان اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے، محبت کے صحیح مفہوم کو سمجھے اور ساتھ ساتھ اس بات کو بھی مکمل طور پر جانے کی اس پاک و پاکیزہ رشتہ کے سایہ میں اسے اپنے آپ کو کن لوگوں سے جوڑنا ہے اور کن لوگوں سے محبت اور دوستی کا رشتہ قائم کرنا ہے تاکہ ہر محب انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کامیابی کی منزلیں طے کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ محمدي ري شهري، محمد، دوستي در قرآن و حديث، ترجمه سيد حسن اسلامي، قم، دارالحديث، چاپ اول، 1379، جلد ۱،ص17.
۲۔ مذکورہ ماخذ، صفحہ 19۔
۳۔ مذکورہ ماخذ، ص366، حدیث861، دعائم الإسلام : 1 / 71.
۴۔ سورۂ ھود، آیت ۹۰۔
۵۔ محمدي ري شهري، محمد، دوستي در قرآن و حديث، ترجمه سيد حسن اسلامي، قم، دارالحديث، چاپ اول، جلد۱، ص 4۰4، حدیث ۹۵2۔ الإمام عليّ عليه السلام ـ في فَضلِ الإِسلامِ ـ ثُمَّ إنَّ هذَا الإِسلامَ دينُ اللّه ِ الَّذِي اصطَفاهُ لِنَفسِهِ ، وَاصطَنَعَهُ عَلى عَينِهِ ، وأصفاهُ خِيَرَةَ خَلقِهِ ، وأقامَ دَعائِمَهُ عَلى مَحَبَّتِهِ .( نهج البلاغة : الخطبة 198 ، بحار الأنوار : 68 / 344 / 16)۔
۶۔ رسول اللّه صلى الله عليه و آله : لا يُؤمِنُ عَبدٌ حَتّى أكونَ أحَبَّ إلَيهِ مِن نَفسِهِ ، و تَكونَ عِترَتي إلَيهِ أعَزَّ مِن عِترَتِهِ، ويكَونَ أهليأحَبَّ إلَيهِ منِ أهلِهِ، وتَكونَ ذاتي أحَبَّ إلَيهِ مِن ذاتِهِ .( علل الشرايع: 140/3 عن أبي ليلى ، بحار الأنوار : 27/86/30 ؛ مسند ابن حنبل : 4/547/13913، مسند أبي يعلى : 4 / 81 / 3882)۔
۷۔ محمدي ري شهري، محمد، دوستي در قرآن و حديث، ترجمه سيد حسن اسلامي، قم، دارالحديث، چاپ اول، جلد۱، ص۲۰۔
۸۔ غررالحکم: ۴۰۸۰۔
Add new comment