امام رضا(علیہ السلام) اور مناظرہ کا طریقہ

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس تحریر میں مختصر طور پر امام رضا (علیہ السلام) سے متعلق روایت کے تناظر میں مناظرہ کرنے کے تین اہم طریقوں کو بیان کیا گیا ہے۔

امام رضا(علیہ السلام) اور مناظرہ کا طریقہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دین کی تبلیغ کے مختلف راستے ہیں، ایک مبلغِ دین مختلف فنون کے ذریعہ دیں کی تبلیغ و ترویج کرسکتا ہے البتہ زمان اور مکان کا لحاظ رکھنا، میدان تبلیغ میں بہت ایم کردار نبھاتا ہے، کب اور کہاں کون سے فن کو استعمال کرتے ہوئے دین مبین کے پیغام کو پہنچایا جائے، یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ تبلیغ کے لیئے قدیم الایام سے رائج اور مشہور  طریقے بہت سے ہیں جیسے خطابت، تدریس، تحریر، مناظرہ وغیرہ اور ان سب کی بہترین مثالیں ائمہ (علیہم السلام) کی زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
امام رضا(علیہ السلام) نے بہت سے مناظرے انجام دیئے جنکو پڑھ کر ہم منظرہ کا طریقہ اور اسکے اصول سیکھ سکتے ہیں۔
محدث کبیر جناب شیخ صدوق (رہ) نے امام رضا(علیہ السلام) کے مناظرے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام ؑ اپنے اصحاب سے مناظرے کے اہم اصول بیان فرماتے ہیں۔اس روایت کو اختصار کے ساتھ ہم یہاں بیان کر رہے ہیں، قارئین گرامی تفصیل کے لیئے دیکھیں شیخ صدوقؒ کی کتاب عيون أخبار الرضا عليه السلام[1].
ایک روز مامون نے اپنے مشیرِخاص فضل بن سھل کو حکم دیا کہ تمام موجودہ ادیان کے بڑے علماء کو دربار میں جمع کیا جائے اور امام رضا(علیہ السلام) سے انکا مناظرہ کروایا جائے۔ فضل بن سھل نے مختلف ادیان کے علماء اور متکلمین کو اگلے دن دربار میں جمع ہونے کا حکم دیا، جن میں جاثلیق[2]،راس الجالوت [3]، ھربذ[4] ،روم کے علماء اور صابئین [5]کے بزرگ علماء اور متکلمین شامل تھے۔
(اگلے دن) حسن بن محمد نوفلی کہتے ہیں کہ ہم سب امام رضا(علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مولاؑ کا خادم جسکا نام یاسر تھا  مامون کی طرف سے پیغام لایا کہ مامون کا دربار سجا ہے، مختلف مذاہب کے علماء جمع ہیں اور امامؑ کو مناظرہ کی دعوت دی گئی ہے۔ امام ؑ نے جواب بھجوایا کہ میں جانتا ہوں کہ تیرا مقصد کیا ہے اور میں کل صبح آوں گا۔
راوی کہتے ہیں کہ یاسر چلا گیا اور پھر امامؑ نے مجھ سے سوال کیا : ائے نوفلی تم عراقی ہو اور عراقی لوگ ہوشیار ہوتے ہیں بتاو کہ اس دعوت مناظرے کے پیچھے مامون کا کیا مقصد ہے؟
میں نے عرض کیا: مولاؑ یہ لوگ آپ کو آزمانا چاہتے ہیں اور یہ کام خطرناک ہے۔ امامؑ نے پوچھا کیسے خطرناک ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ لوگ اہل بدعت اور متکلم ہیں، یہ لوگ عالم نہیں ہیں کہ حق بات اور دلیل کو قبول کر لیں بلکہ اسکا انکار کریں گے اور مغالطہ کریں گے، اگر آپ فرمائے گا کہ خدا ایک ہے تو وہ آپ سے کہیں گے کہ پہلے خدا کی وحدانیت کو ثابت کرئیے، اگر آپ فرمائیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)خدا کے رسول ہیں تو وہ آپ سے آنحضرت کی رسالت کو ثابت کرنے کو کہیں گے اور مغالطہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو مجبور کرنے کی کوشش کریں گے کہ آپ اپنی دلیلیں واپس لے لیں۔ میں آپ پر قربان جاؤں! ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ مولا (علیہ السلام) مسکرائے اور فرمایا: اے نوفلی کیا تمکو یہ ڈر ہے کہ وہ لوگ میری دلیلوں کو ردّ کردیں اور مجھے شکست ہوجائے؟ میں نے عرض کیا: نہیں مولاؑ،خدا کی قسم  ایسا نہیں ہے میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ ان لوگوں پر غالب آجائیں۔
امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا : اے نوفلی، جاننا چاہتے ہو کہ مامون کب  اپنی حرکت پر پشیمان ہو گا؟ میں نے عرض کیا، جی مولا میں جاننا چاہتا ہوں۔ امامؑ نے فرمایا : اس وقت جب مامون یہ دیکھے گا کہ میں توریت کے ماننے والوں کو توریت سے، انجیل کے ماننے والوں کو انجیل سے، زبور کو ماننے والوں کو زبور سے جواب دوں گا اور صابئین کو عبری زبان میں، مجوسیوں کو  فارسی زبان میں، رومیوں کو رومی زبان میں جواب دوں گا اور ہر فرقہ کے علماء سے انکی زبان میں مناظرہ کروں گا اور اس وقت میں سب پر غالب ہونگا اور سب میری بات کو قبول کرکے اپنی شکست تسلیم کرلیں گے تب مامون کو پتہ چلے گا کہ جو وہ چاہتا ہے وہ اسکے لیئے شائستہ نہیں ہے اور اس طرح وہ اپنے کیئے پر شرمندہ ہو جائے گا۔(اور پھر امامؑ نے فرمایا) و لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔(ہر قوت اور  طاقت خداوند عالم کی جانب سے ہے)

نتیجہ:اس روایت سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مناظرہ میں تیں اصولوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
پہلے یہ کہ اپنے خصم (دشمن۔مدّ مقابل) کے بارے میں کافی معلومات حاصل کرنا اور اسکے ارادے سے باخبر ہونا ضروری ہے، اسی لیئے امامؑ نے نوفلی سے پوچھا کہ مامون کا کیا ارادہ ہے؟ اور نوفلی نے ان علماء کے بارے میں بھی بتایا۔
دوسری بات یہ کہ ایسی زبان استعمال کریں جو مدّ مقابل شخص کو سمجھ میں آئے، اس سے وہ مرعوب ہوگا اور شکست کھائے گا، اسی لیئے امامؑ نے فرمایا کہ انکی زبان میں گفتگو کریں گے۔
تیسری بات یہ کہ ان اصولوں کو آپ بخوبی جانتے ہوں جو مدّ مقابل کے لیئے مسلم ہوں کیونکہ انکے ہی اصولوں کے ذریعہ ان پر غلبہ حاصل کر کے حق واضح کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیئے امامؑ نے فرمایا کہ انکی کتابوں سے جواب دیں گے۔
انشاء اللہ کوشش کی جائے گی کہ نمونہ کہ طور پر امام رضا(علیہ السلام) کے کچھ مناظرے قارئیں گرامی کی خدمت میں پیش کیئے جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

[1] شیخ صدوق ، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص: 154  باب نمبر  ۱۲ -ذكر مجلس الرضا (ع) مع أهل الأديان و أصحاب المقالات في التوحيد عند المأمون‏
[2] جاثلیق (ث اور لام کسرہ کے ساتھ): یونانی لفظ ہے جسکا مطلب ہے بششپوں (Bishop) کا سربراہ یا وہ جو عیسائیوں کا بزرگ ہو۔کسی شخص کا خاص نام نہیں ہے بلکہ  نصاری (حضرت عیسی مسیح کے ماننے والے) کے بزرگ عالم کو کہتے ہیں اور شاید Catholic  لفظ اسی سے بنا ہے [المنجد]
[3] کسی شخص کا خاص نام نہیں ہے بلکہ یھودیوں کے بزرگ عالم کو کہتے ہیں۔
[4] ھربذ اکبر یا ھیربد اکبر، زرتشتوں(مجوسی۔آتشپرست) کے بزرگوں کا لقب ہے جو انکا رہبر ہو اور آتشکدہ کا رکھوالا ہو۔
[5] وہ گروہ جو حضرت یحیی کے ماننے والے ہیں اور ان میں بھی دو اہم گروہ ہیں ایک وہ جو موحد ہیں دوسرے وہ جو مشرک ہیں،یہ لوگ دین و شریعت،خدا  اور پیغمبر کے  منکر ہوتے ہیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 78