خلاصہ: امام رضا(علیہ السلام) کے بعض اقوال کو مرتب طور پر پیش کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معصومین علیہم السلام کے فرامین، ان کے ماننے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں اور کامیابی کی زندگی گزارنے کا سلیقہ بتاتے ہیں، اسی لئے ذیل میں ہم امام علی رضا علیہ السلام کی کشھ احادیث کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
۱۔ «الْمُسْتَتِرُ بِالْحَسَنَةِ يَعْدِلُ سَبْعِينَ حَسَنَةً وَ الْمُذِيعُ بِالسَّيِّئَةِ مَخْذُولٌ وَ الْمُسْتَتِرُ بِالسَّيِّئَةِ مَغْفُورٌ لَهُ»[۱].
نیک کام کو پوشیدہ رکھ کر انجام دینے والے کا ثواب ۷۰، نیکیوں کے برابر ہے، کھلے عام بدی کرنے والا شرمندہ اور تنہا ہے اور (دوسروں کے) برے کام کو چھپانے والا وہ ہے جس کے گناہ بخش دیئے گئے ہیں۔
۲۔ «صِلْ رَحِمَكَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاء» [۲]۔
اپنے رشتہ داروں کو سے صلۂ رحم کرو اگر چہ ایک گھونٹ پانی کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو.۔
۳۔ «لَا يَتِمُّ عَقْلُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ حَتَّى تَكُونَ فِيهِ عَشْرُ خِصَالٍ الْخَيْرُ مِنْهُ مَأْمُولٌ وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَأْمُونٌ يَسْتَكْثِرُ قَلِيلَ الْخَيْرِ مِنْ غَيْرِهِ وَ يَسْتَقِلُّ كَثِيرَ الْخَيْرِ مِنْ نَفْسِهِ- لَا يَسْأَمُ مِنْ طَلَبِ الْحَوَائِجِ إِلَيْهِ وَ لَا يَمَلُّ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ طُولَ دَهْرِهِ الْفَقْرُ فِي اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْغِنَى وَ الذُّلُّ فِي اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعِزِّ فِي عَدُوِّهِ وَ الْخُمُولُ أَشْهَى إِلَيْهِ مِنَ الشُّهْرَةِ ثُمَّ قَالَ (ع) الْعَاشِرَةُ وَ مَا الْعَاشِرَةُ قِيلَ لَهُ مَا هِيَ قَالَ (ع) لَا يَرَى أَحَداً إِلَّا قَالَ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي وَ أَتْقَى»[۳]۔
مسلمان شخص کی عقل کامل نہیں ہے مگر یہ کہ وہ دس خصلتوں کا مالک ہو: اس سے خیر و نیکی کی امید کی جاسکی ہو، لوگ اس سے امن و امان میں ہوں، دوسروں کی مختصر نیکی کو زیادہ سمجھے، اپنی خیر کثیر کو تھوڑا سمھجے، اس سے جتنی بھی حاجتیں مانگی جائیں وہ تھک نہ جائے، اپنی عمر میں طلب علم سے اکتا نہ جائے، خدا کی راہ میں غربت اس کے نزدیک مالداری سے بہتر ہو، خدا کی راہ میں ذلت اس کے نزدیک خدا کے دشمن کے ہاں عزت پانے سے زیادہ پسندیدہ ہو، گم نامی کو شہرت سے زیادہ پسند کرتا ہو، اور پھر فرمایا: اور دسویں خصلت کیا ہے اور کیا ہے دسویں خصلت! عرض کیا گیا: آپ فرمائیں وہ کیا ہے؟ فرمایا: جس کسی کو بھی دیکھے تو کہے کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر اور زيادہ پرہیزگار ہے۔
۴۔ «الْإِيمَانُ أَفْضَلُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِدَرَجَةٍ وَ التَّقْوَى أَفْضَلُ مِنَ الْإِيمَانِ بِدَرَجَةٍ وَ الْيَقِينُ أَفْضَلُ مِنَ التَّقْوَى بِدَرَجَةٍ وَ لَمْ يَقْسِمْ بَيْنَ بَنِي آدَمَ شَيْئاً أَقَلَّ مِنَ الْيَقِين»[۴]۔
ایمان اسلام سے ایک درجہ بہتر ہے اور تقوی ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور یقین، تقوی سے ایک درجہ بہتر ہے اور فرزند آدم کو یقین سے کم کوئی چیز عطا نہیں ہوئی۔
۵۔ «وَ الْإِيمَانُ أَدَاءُ الْفَرَائِضِ وَ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ وَ الْإِيمَانُ هُوَ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْكَان» [۵]۔
ایمان واجبات کا انجام دینا اور حرام کاموں سے دوری اختیار کرناہے اور دل کے ساتھ اعتقاد رکھنا اور زبان سے اقرار کرنا اور اعضاء و جوارح کے ساتھ عمل کرناہے۔
۶۔ «إِنَّ الصَّمْتَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْحِكْمَةِ إِنَ الصَّمْتَ يَكْسِبُ الْمَحَبَّةَ إِنَّهُ دَلِيلٌ عَلَى كُلِّ خَيْرٍ»[۶].
بے شک خاموشی حکمت کے دروازوں میں سے ہے اور خاموشی کے ذریعہ دوستی اور محبت حاصل ہوتی ہے اور خاموشی تمام نیکیوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔
۷۔ «صديق كلّ امرء عقله و عدوّه جهله»[۷]۔
ہر آدمی کا دوست اس کی عقل ہے اور اس کا دشمن اس کا جہل ہے۔
۸۔ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ الْبَزَنْطِيِّ قَالَ قَرَأْتُ كِتَابَ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا(علیہ السلام) « أَبْلِغْ شِيعَتِي أَنَّ زِيَارَتِي تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى أَلْفَ حَجَّةٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ يَعْنِي ابْنَهُ(علیہ السلام) أَلْفَ حَجَّةٍ قَالَ إِي وَ اللَّهِ وَ أَلْفَ أَلْفِ حَجَّةٍ لِمَنْ زَارَهُ عَارِفاً بِحَقِّه»[۸]۔
محمدابن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا(علیہ السلام) کی کتاب میں پڑھا: ہمارے شیعوں تک اس پیغام کو پہونچا دو کہ میری قبر کی زیارت ایک ہزار بار [مستحب] حج کے برابر ہے۔
راوى کہتا ہے: میں نے امام محمد تقی(علیہ السلام) سے عرض کیا: کیا آپ کے والد کی زیارت کے لئے ایک ہزار بار حج کا ثواب ہے؟
امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں جس نے معرفت کے ساتھ میرے والد کی زيارت کی اس کے لئے دس لاکھ حج [مستحب] کا ثواب مقرر ہے۔
خداوند عالم ہمیں اپنے معصومین علیہم السلام کے فرامین کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى، الكافي، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ق،ج۲، ص۴۲۸.
[۲]۔محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى، الكافي، ج۲، ص۱۵۱۔
[۳]۔ محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ق،ج۷۵، ص۳۳۶.
[۴]۔ محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج۶۷، ص۱۷۱۔
[۵]۔ محمد باقر بن محمد تقى مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار،ج۱۰، ص۳۶۵۔
[۶]۔محمد بن يعقوب بن اسحاق كلينى، الكافي، ج۲، ص۱۱۳۔
[۷]۔ عبد الواحد بن محمد تميمى آمدى، غرر الحكم و درر الكلم، دار الكتاب الإسلامي، ۱۴۱۰ق، ص۴۲۱.
[۸]۔محمد بن على ابن بابويه، من لا يحضره الفقيه، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم،۱۴۱۳ ق، ج۲، ص۵۸۳.
Add new comment