حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مضمون میں امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔

حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سلسلہ امامت و ولایت کا آٹھواں آفتاب، آفتاب نہم کی ولادت کے انتظار میں تھا اور شیعہ، آسمان امامت پر نویں سورج کے طلوع ہونے کے منتظر تھے، تقریبا سینتالیس سال گزر گئے تھے کہ حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے گھر میں کسی فرزند کی ولادت نہیں ہوئی تھی جس کی آمد سے امامت کا سلسلہ جاری رہتا، یہاں تک کہ ۱۹۵ ہجری قمری میں شہر مدینہ[1] جواد الائمہ (علیہ السلام) کی ولادت سے نورانی ہوگیا، نسل امامت کے جاری رہنے کے بارے میں شیعوں کی پریشانی زائل ہوگئی اور شجرہ امامت پر نئے پھول کے کھلنے سے ناامیدیاں، امیدوں میں بدل گئیں، بار دیگر خاندان رسالت کا چمن سرسبز ہوگیا اور نور امامت کے بجھنے کے امیدوار، مایوسی کے بھنور میں ڈوب کر ناکام ہوگئے۔
حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کے گھرانے میں اور شیعوں کی محفلوں میں، حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کو بابرکت مولود کے طور پر ذکر کرتے تھے۔ جیسا کہ "ابویحیای صنعانی" کا کہنا ہے کہ ایک دن حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے حضور میں آپ کے فرزند ابوجعفر کو جو بچپن میں تھے، لائے گئے تو امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا: "هذَا الْمَوْلُودُ الَّذی لَمْ یُولَدْ مُوْلُودٌ اَعْظَمُ بَرَکَةً عَلی شیعَتِنا مِنْهُ"[2]، "یہ مولود ایسا ہے جس سے زیادہ بابرکت کوئی مولود، ہمارے شیعوں کے لئے پیدا نہیں ہوا"۔
حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) ایسی باکمال شخصیت ہیں جن کے والد گرامی آٹھویں امام، حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) ہیں جو عالم آل محمد (علیہم السلام) کے لقب سے مشہور ہیں۔
آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی سبیکہ ہے جو نقل کے مطابق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ ام المومنین جناب ماریہ قبطیہ (جناب ابراہیم کی والدہ) کی اولاد میں سے تھیں۔ آپ کو دُرّه، خیزران، ریحانہ [3]اور سکینہ[4] بھی کہا گیا ہے۔خیزران کا نام حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے آپ کے لئے منتخب فرمایا تھا[5]۔ ایک روایت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو سراہا ہے جسے مرحوم کلینی نے اصول کافی میں نقل کیا ہے[6] آپ بافضیلت، متقی، پاک و پاکیزہ اور پاکدامن خاتون تھیں۔
بنابریں امام محمد تقی (علیہ السلام) معصوم باپ اور پاکدامن والدہ کی گود میں پرورش پائے تا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے عظیم ترین ذمہ داری سونپی جائے جو منصب امامت ہے، تاکہ توحید پروردگار کو لوگوں کے لئے واضح کرتے ہوئے اللہ تعالی کے احکام کو اس کی زمین پر نافذ کریں، قرآن کے امر و نہی لوگوں کی زندگی کے قدم قدم پر عملی جامہ پہنیں، علم الہی کے ذریعے شیطانی جہالت شرمندگی کے گڑھے میں ڈوب جائے، نور پروردگار کے ذریعے ظالموں کے پھیلائے ہوئے اندھیرے ہٹ جائیں، مظلوم کی آہ، عالمی سطح پر گونج اٹھے، حق کے ذریعے باطل کو کچل کر نابودی کے گھاٹ اتار دیا جائے، کفر و شرک کے بت خانوں کو دلوں، گھروں اور دنیا بھر سے اکھیڑ کر "لاالہ الا اللہ" کا علم لہرا دیا جائے، ابوسفیان کے منحوس سلسلے کی کڑیوں کو توڑ کر "محمد رسول اللہ" کے کلمہ طیبہ کی صدا کو ہر انسان کی زبان پر جاری کردیا جائے اور غاصبین خلافت کے ناپاک ہاتھوں سے خلافت کو واپس لے کر "علی ولی اللہ" کی آواز کو آسمان و زمین کے درمیان اس طرح سے پھیلا دیا جائے کہ ہر شخص خلافت الہی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بارہ ائمہ اطہار کے لئے مخصوص جان کر گواہی دیتا ہوا نظر آئے کہ "اشہد ان امیرالمومنین علیاً ولی اللہ و اولادہ المعصومین حجج اللہ"۔ اور نیز اللہ کی نافرمانی کی جگہ امام محمد تقی (علیہ السلام) کے تقوی کی کرنیں ہر انسان کے ایمان و عمل اور کلام و کردار میں چمکنے لگیں، ہر طرح کے منحوس بخل اور کنجوسی کی جگہ پر جوادالائمہ (علیہم السلام) کا جود و کرم اور سخاوت و عطا حکومت کرے۔
حضرت امام جواد (علیہ السلام) کا مختلف طرح کے دشمنوں سے سامنا تھا: غاصب و ظالم خلیفہ وقت کا امامت اور شیعوں پر تشدد، حکومت وقت کی دھوکہ سے لیس پالیسیاں، مختلف گمراہ مذاہب کی علمی یلغار، اسلامی سماج کا متعدد اعتقادی اختلافات میں گھرے رہنا، من گھڑت احادیث کا رائج ہونا، منافقوں کا اہل بیت (علیہم السلام) کے نام پر شیعوں سے مال لوٹنا، قرآن کریم کی غلط تفسیر، یہ مسائل ان مسائل میں سے ہیں جن سے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کو مقابلہ کرنا تھا اور ایسے گمراہ انسانی معاشرے کی اصلاح کرنی تھی تا کہ ظلم و بربریت کا خاتمہ کرتے ہوئے قرآن مجید اور سنت اہل بیت (علیہم السلام) کے احکام کو اس معاشرے میں قائم کرسکیں۔
ان شاء اللہ اگلی تحریروں میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ان مشکلات سے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) نے کیسے مقابلہ کیا، الہی تدابیر کے ذریعے کیسے حکومت وقت اور مختلف گروہوں کی شیطانی پالیسیوں کو ناکام کردیا اور دین اسلام کو کس طرح پامال ہونے سے بچایا، یہاں تک کہ آج جو دین اسلام اور مذہب شیعہ کا اقتدار ہے وہ حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی ثقافتی جدوجہد کا مرہون منت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] حيات فكرى و سياسى ائمه، جعفريان، ص:471۔
[2] اصول كافى، ج‏1، ص‏321۔
[3] بحارالانوار، ج 50، ص 7۔
[4] موسوعه اهل البیت، ج 16، ص 14.
[5] بحارالانوار، ج 50، ص 7؛ اعیان الشیعه، ج2، ص32۔
[6] الکافی، ج1، ص323، ح14۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 43