خلاصہ: اس مضمون میں مولائے کائنات اور حضرت زھراء (علیھاالسلام) کی شادی کے سال اور عمر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام اور جناب زہراء علیھاالسلام کی شادی
اس عنوان کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اور حضرت فاطمۃ الزھراء (سلام اللہ علیھا) کی شادی کے وقت ان کی عمر مبارک کیا تھی اور دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ شادی کب ہوئی۔
الف. شادی کے وقت آپ کی عمر مبارک
اس سوال پر تاریخ میں بہت اختلاف ہے اسی وجہ سے ہجرت کے بعد پہلا ،دوسرا یا تیسرا سال لکھا گیا ہے البتہ اکٖثر علماء شیعہ شادی کے وقت حضرت زہراء (علیھا السلام) کی عمر کو چودہ سال سے زیادہ لکھتے ہیں۔ [1]
اور بعض علماء شیعہ نے شادی کے وقت حضرت زھراء (علیھا السلام) کی عمر کو 9، 10 ، یا حد اکٖثر 11 لکھا ہے۔ [2]
اور بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ (علیھا السلام) کی ولادت ہوتی ہے تو اس وقت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا سن مبارک 41 سال تھا اور تب جنگ احد برپا ہوئی اور پھر جنگ احد کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) اور حضرت فاطمہ (علیھا السلام) کی شادی کی اور اس وقت حضرت زھراء (علیھا السلام) کی عمر 15 سال 5 مہینہ 15 دن تھی اور مولائے کائنات کی عمر مبارک 21 سال 5 مہینہ تھی۔ [3]
اور کچھ نے حضرت فاطمہ (علیھا السلام ) کی عمر اس وقت 18 سال لکھی ہے۔ [4] ابن حجر نے الإصابة میں [5] اور ابن سعد نے طبقات الکبیر میں 18 سال لکھی ہے۔ [6]
ب. آپ کی شادی کب ہوئی
1.مشھور قول کے مطابق پہلی ذی الحجہ کو آپ کی شادی ہوئی۔[7]
2. ایک قول کے مطابق جنگ بدر کی واپسی پر ہوئی۔ [8]
3. امام صادق (علیہ السلام) کی راویت کے مطابق ماہ رمضان المبارک میں عقد ہوا اور پہلی ذی الحجہ دو ہجری کو آپ کی شادی ہوئی۔ [9]
4.ایک قول یہ بھی ہے کہ 21 ماہ محرم 3 ہجری کو شادی ہوئی۔[10]
5.بعض کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ آخر ماہ صفر کو عقد ہوا اور پہلی ذی الحجہ کو شادی ہوئی۔[11]
6. یہ بھی ہے کہ ماہ ربیع الاول میں عقد ہوا تھا۔ [12]
7. ابن سعد نے روایت کی ہے کہ جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) مدینہ آئے تو 5 مہینہ کے بعد ان کا عقد کر دیا اور پھر جنگ بدر سے واپسی پر ان کی شادی کی۔[13]
نتیجہ: ان تمام تاریخی اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ان باتوں کو مانننا چاہئے یا تو بہت مشہور ہیں اور یا تو عقلی طور پر انکے ماننے میں کوئی ہرج پیش نہ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1]امین، سید محسن ، أعیان الشیعة، ج 1، ص 313، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، 1406 ق.
[2] انصاری، اسماعیل،الموسوعة الکبرى عن فاطمة الزهراء،ج4،ص21، دلیل ما، قم، 1428ق.
[3] ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفة الأصحاب ، ج 4، ص 1893، بیروت، دار الجیل، ط الأولى، 1412/1992.
[4] ابوالفرج اصفهانى، مقاتل الطالبیین، ص 59، دار المعرفة،بیروت، بی تا.
[5] ابن حجر، الإصابة فى تمییز الصحابة، ج 8، ص 264، بیروت، دارالکتب العلمیة، ط الأولى، 1415/1995.
[6] ابن سعد، الطبقات الکبرى، ج 8، ص 18، دار الکتب العلمیة، ط الأولى، 1410/1990.
[7] ابن شهرآشوب، المناقب، ج 3، ص 357، قم، 1379 ق.
[8]شیخ طوسی، الأمالی، ص 43، دار الثقافة، قم، 1414ق.
[9] إربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة، ج 1، ص 364، مکتبة بنی هاشم، تبریز، 1381ق.
[10] سید بن طاوس، إقبال ص 584، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1367 ش.
[11]مجلسی، بحار الأنوار، ج 19، ص 192-193، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ق.
[12] مجلسی، بحار الأنوار، ج 19، ص 192-193، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ق.
[13] ابن سعد، الطبقات الکبرى، ج 8، ص 18، دار الکتب العلمیة، ط الأولى، 1410/1990.
Add new comment