خلاصہ: اس مضمون میں اسلام میں ازدواج کی اہمیت کو مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی آیات کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ ازدواج، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور آرام و رزق میں وسعت اور خدا کے فضل و کرم کا باعث ہے اور ازدواج، جوانوں کو فساد و انحراف سے بچانے کا ذریعہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازدواج کا مسئلہ بلاتفریقِ دین و مسلک ہر دور میں انسانی سماج کے درمیان اہمیّت کا حامل رہا ہے۔ مختلف ادیان و مذاہب اور مسالک کے پیروکاروں کے مابین ازدوج کے آداب و رسوم میں تو فرق ہوسکتا ہے لیکن ازدواج کی اہمیّت سے کسی باشعور انسان کو انکار نہیں۔
کون نہیں جانتا کہ ازدواج ہی وہ مقدّمہ ہے جو انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے خاندان کی بنیاد فراہم کرتا ہے، معاشرے میں خاندان کی اہمیّت ایک ستون کی سی ہے، اگر کہیں پر خاندانی نظام کھوکھلا ہونا شروع ہوجائے تو وہاں کا معاشرہ نہ صرف اخلاقی و دینی روایات کھو دیتا ہے بلکہ اپنی تہذیب و تمدّن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
تاریخِ عالم شاہد ہے کہ جو قومیں اخلاقی و دینی روایات کھودیں اور اپنی تہذیب و تمدّن سے ہاتھ دھو بیٹھیں وہ کسی بھی طرح آبرومندانہ زندگی نہیں گزار سکتیں، معاشرتی استحکام اور اقوام کا وقار خاندانوں کی تشکیل پر ہی موقوف ہے۔
اس بات کی اہمیت کو مدّ نظر رکھے ہوئے ازدواج کے بعض فوائد کو اس مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے:
١۔ ازدواج ،خداکی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور آرام اور سکون کا سبب ہے :
خداوند عالم نے قرآن مجید میں ازدواج کو اپنی آیات اور نشانیوں میں سے قرار دیا ہے، : « وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ[سورۂ روم، آیت:۲۱]«اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے، اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں»۔
انسان اپنی ساری زندگی آرام و سکون کی تلاش میں صرف کر دیتا ہے، وہ مال و دولت سمیٹتاہے، خداوند عالم اس آیت میں فرمارہا ہے کہ ازدواج کرنے سے انسان کو سکون ملتا ہے۔
٢۔ ازدواج ،فضل پروردگار اور وسعت رزق کا باعث ہے :
ازدواج کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ازدواج کرنے سے انسان کے رزق میں وسعتِ ہوتی ہے اور وہ خصوصیت کے ساتھ خدا کے ٖفضل اور کرم کے دائرہ میں داخل ہوجاتا ہے، جس کے بارے میں خداوند عالم ارشاد فرما رہاہے: « وَأَنكِحُوا الْأَيَامَى مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن يَكُونُوا فُقَرَاء يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ[سورۂ نور، آیت:۳۲] اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے»
اس آیت کی تفسیر میں مفسّرین نے کہا ہے کہ" َأنکِحُوا" ایک عربی کلمہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق امر کا صیغہ ہے جو کہ ازدواج کے وجوب پر دلالت کرتا ہے، اس آیت میں امر کے صیغہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ ازدواج کی ضرورت رکھتے ہیں ان پر ازدواج کرنا واجب ہے اور یہ ذمہ داری والدین اور سرپرستوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ازدواج کے لئے مقدمات فراہم کریں تاکہ ان کے بچّے صحت و سلامتی کے ساتھ قرآن و سنّت کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزاریں۔
اس آیت میں نہ صرف سرپرستوں کو اپنے ماتحتوں اور زیرکفالت افراد کے لئے ازدواج کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رازقِ حقیقی فقط خدا کی ذات ہے، اس لئے ازدواج کے سلسلے میں رزق کی تنگی سے نہ ڈرا جائے ،جو بھی ازدواج کرے گا اگر وہ فقیر ہوگا تو خدا اسے پنے فضل و کرم کے ساتھ غنی کر دے گا۔
۳۔ ازدواج ،جنسی بے راہروی سے نجات کا ذریعہ ہے:
ازدواج کے فوئد میں سے ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ ازدواج جنسی بے راہروی سے نجات کا باعث ہے۔ یعنی ایک باغیرت اور غیّور معاشرے کی تشکیل کے لئے ازدواج کو کلیدی اہمیّت حاصل ہے، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام)، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ایک روایت نقل فرما رہے ہیں کہ ایک دن رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)منبر پر تشریف لے گئے اور آپ نے فرمایا: اے لوگو! جبرائیل نے خدا کی طرف سے کہا ہے کہ کنواری لڑکیاں درختوں کے پھلوں کی مانند ہیں، جیسے اگر پھلوں کو بروقت درختوں سے اتار نہ لیاجائے تو سورج کی شعاعیں انھیں خراب کردیتی ہیں اور ہوائیں انھیں بکھیر دیتی ہیں، اسی طرح بیٹیاں جب بالغ ہوجاتی ہیں تو خواتین کی طرح ان میں جنسی احساس بیدار ہوتا ہے، جس کی تسکین ازدواج میں ہے، اگر ان کا ازدواج نہ کیا جائے توان کے فساد و شر میں مبتلا ہونے کا امکان ہے۔ اس لئے کہ یہ انسان ہے اور انسان لغزش و خطاء سے محفوظ نہیں ہے[۱]۔
نتیجہ:
ازدواج در اصل انسانی فطرت کی آواز پر لبیک کہناہے۔ انسانی شخصیت کے کمال اور رشد کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے فطری تقاضوں کو بطریق احسن پورا کرے، بہت سارے لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ازدواج کے سلسلے کو فطری تقاضا نہیں سمجھتے اور اسے تعلیم اور نوکری کے بہانے سے ٹالتے رہتے ہیں، جس کے منفی نتائج کبھی کھل کر فورا سامنے آجاتے ہیں اور کبھی صرف بچے اکیلے ہی اس آگ میں جلتے رہتے ہیں اور مخفی گوشوں میں بیٹھ کر اپنے برے اعمال کے ساتھ اپنے والدین کے گناہوں اور بدبختیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
.....................................
[۱]۔اسدالله داستانی بنیسی، با چه کسی ازدواج کنیم؟http://www.ghadeer.org/Book/439/68279
Add new comment