امام باقر علیہ السلام کی حسن بصری سے گفتگو

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:امام باقر علیہ السلام کا حسن بصری سے  قرآن کی ایک آیت کی غلط تفسیر کئے جانے کے سلسلہ میں گفتگو۔

امام باقر علیہ السلام کی حسن بصری سے گفتگو

حسن بصری، امام باقر(علیہ السلام)کے پاس گیا اور عرض کی کہ میں آپ سے چند سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم اہل بصرہ کے فقیہ نہیں ہو؟
تو کہتا ہے کہ لوگ ایسے کہتے ہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: تم نے بہت بڑا کام اپنے ذمہ لے لیا ہے، میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ خداوند متعال نے لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑا دیا ہے، حسن بصری خاموش ہو گیا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر خدا کسی کو امن و امان کا وعدہ دے کیا اسے کسی چیز سے ڈرنا چاہیے؟
حسن بصری نے کہا نہیں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ایک آیت پڑھتا ہوں کہ جس کی تم نے غلط تفسیر کی ہے۔
 حسن بصری نے کہا کون سی آیت؟
آپ نے فرمایا:
{وَجَعَلْنَا بَینَهُمْ وَبَینَ الْقُرَی الَّتِی بَارَکنَا فِیهَا قُرًی ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِیهَا السَّیرَ سِیرُوا فِیهَا لَیالِی وَأَیامًا آمِنِینَ }
 ترجمه: اور جب ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں کچھ نمایاں بستیاں قرار دیں اور ان کے درمیان سیر کو معّین کردیا کہ اب دن و رات جب چاہو سفر کرو محفوظ رہوگے.[ سبأ–۱۸]
میں نے سنا ہے تم نے امن کی جگہ کو مکہ تفسیر کیا ہے؟
وای ہو تم پر!
یہ کون سا امن ہے کہ ان کے مال کو لوٹا جا رہا ہے اور ان میں سے کچھ کو قتل کر دیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد امام (علیہ السلام) نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: وہ امن کی جگہ ہم اہل بیت (علیھم السلام) ہیں۔
حسن بصری نے کہا: آپ پر قربان جاؤں، کیا قرآن میں کوئی ایک آیت بھی ایسی ہے کہ جو قریہ کو انسان کہے؟
امام (علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں ہے سورہ طلاق کی آیت نمبر آٹھ کو پڑھو:
{وَکأَین مِّن قَرْیةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِیدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّکرًا}
ترجمه: اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے حکم خدا و رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے ان کا شدید محاسبہ کرلیا اور انہیں بدترین عذاب میں متبلا کردیا [طلاق–۸]
امام (علیہ السلام) نے فرمایا:کیا نافرمانی کرنے والے درو دیوار ہیں یا انسان؟
 حسن بصری نے کہا: ہاں منظور وہی انسان ہیں۔
پھر فرمایا: سورہ یوسف کی ۸۲ نمبر آیت کو پڑھو :
{وَاسْأَلِ الْقَرْیةَ الَّتِی کنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ }
ترجمه: آپ اس بستی سے دریافت کرلیں جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے پوچھ لیں جس میں ہم آئے ہیں اور ہم بالکل سچےّ ہیں  [ یوسف–۸۲]
امام (علیہ السلام) نے فرمایا: جان لو کہ قری سے مراد ہم اور علماء شیعہ ہیں اور سیر سے مراد علم ہے۔
یعنی جو بھی ہماری طرف آیا اس نے حلال اور حرام کو سمجھ لیا اور اسی طرح شک اور گمراہی سے امان میں رہ گیا کیونکہ احکام کو جہاں سے حق ہے وہیں سے ہی لینا چاہیے کیونکہ ہم علم کے وارث ہیں نہ تم اور نہ ہی تمہارے جیسے لوگ۔
اور ہاں یہ بات کہ خداوند متعال نے اپنے بندوں کو ایسے ہی چھوڑ دیا ہے، نہیں ایسی بات نہیں خدا کبھی کسی کو مجبور نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے ظلم شمار ہو گا۔[۱]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
مجلسی، بحار الانوار، ج۲۴، ص۲۳۵، ح ۴؛ طبرسی، احتجاج، ج۲، ص۳۲۷.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 34