خلاصۃ: امام محمد باقر (علیہ السلام) کی حدیث کے مطابق نماز، دین کا ستون ہے، نیز دیگر معصومین (علیہم السلام) سے بھی روایات پائی جاتی ہیں جن میں نماز کو ستون دین بتایا گیا ہے، اس مقالہ میں ان روایات پر بحث کی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز فارسی لغت کا لفظ ہے جو عربی کے لفظ" صلاۃ" کا متبادل ہے، صلاۃ کے معنی "دعا" کے ہیں اور قرآن کی بعض آیات[1] میں لفظ "صلاۃ" دعا کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔
قرآن کریم میں ۹۸ بار نماز کا تذکرہ ہوا ہے۔ قرآن مجید میں کسی عمل کی نماز جتنی تاکید نہیں ہوئی اور قرآن کریم نے جو نماز کے فائدے بتائے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں: نماز گناہ سے روکتی ہے[2]، فلاح اور کامیابی کا باعث ہے[3]، زندگی کی مشکلات میں مددگار ہے[4]۔
قرآن کی نظر میں نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ نہ صرف جہنمیوں کی چیخ و پکار کی ایک وجہ نماز کو چھوڑنا بتایا ہے[5] بلکہ نماز میں غفلت کرنے والوں کے لئے بھی تباہی بتائی ہے اور ان کا ذکر دین کو جھٹلانے والوں کے بعد کیا ہے۔[6] نماز ایسی عبادات میں سے ہے جو ہر شریعت میں تھی اور اس کے طریقے شریعتوں کے مطابق مختلف تھے۔ قرآن کریم میں حضرات ابراہیم[7]، اسماعیل[8]، اسحاق، موسی[9]، زکریا[10]، عیسی[11]، شعیب[12]، لقمان حکیم[13] (علیہم السلام) کی نماز کا تذکرہ ہوا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور معصومین حضرات (علیہم السلام) کے کلام اور کردار میں نماز انتہائی بلند مقام کی حامل ہے۔ کتاب وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں نماز کے سلسلے میں ۱۱۶۰۰ سے زائد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
ان معصوم حضرات میں سے ایک حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے نماز پر بہت تاکید کی ہے۔ اس مقالہ میں حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے نماز کے بارے میں چند احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کو دیگر روایات کے تناظر میں دیکھتے ہیں:
آپ فرماتے ہیں: "الصَّلاةُ عَمُودُ الدّينِ، مَثَلُها كَمَثَلِ عَمُودِ الْفُسْطاطِ، إذا ثَبَتَ الْعَمُودُ ثَبَتَ الاْوْتادُ وَ الاْطْناب، وَ إذا مالَ الْعَمُودُ وَانْكَسَرَ لَمْ يَثْبُتْ وَتَدٌ وَلَا طَنَبٌ "[14]، "نماز، دین کا ستون ہے، نماز کی مثال خیمہ کے ستونوں کی طرح ہے، جب ستون مضبوط ہو تو کیل اور رسیاں بھی مضبوط ہوں گی اور جب ستون گرجائے اور ٹوٹ جائے تو کوئی کیل اور رسی مضبوط نہیں رہ سکتی۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) اس حدیث میں مثال اور تشبیہ کے ذریعہ نماز کی اہمیت کو بیان فرماتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ عبادات میں نماز کا مقام وہی ہے جو خیمہ میں ستون کی حیثیت ہوتی ہے، یعنی جیسے ستون گرجائے تو خیمہ بھی گرجاتا ہے اسی طرح اگر نماز نہ ہو تو دیگر عبادات بھی قائم نہیں رہیں گی۔ لہذا اگر نماز قبول نہ ہو تو دوسری عبادتیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
نماز اس لیے دین کا ستون ہے کہ اس کے بغیر دین بے معنی ہے، جیسا کہ خیمہ ستون کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ نماز ایسی جامع اور مکمل عبادت ہے جو دین میں ستون جیسی ہے۔ بہت ساری عبادات اور دینی دستورات (جیسے زکات، حج، جہاد، روزہ وغیرہ) کی صفت نماز میں پائی جاتی ہے۔ زکات اس چیز کا امتحان ہے کہ آدمی کس حد تک مادیات اور دنیاوی امور سے وابستہ نہیں اور نماز میں بھی نمازی ہر چیز کو چھوڑ کر اور ہر چیز سے توجہ ہٹا کر اللہ تعالی کی طرف طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ روزہ میں روزہ دار پر کچھ چیزیں حرام ہوجاتی ہیں اسی طرح نماز میں بھی۔
شاید نماز کا ستون دین ہونے کی وجہ یہ ہو کہ سب اعمال کی قبولیت، نماز کی قبولیت پر موقوف ہے اور اگر اس کو مثال سے بیان کیا جائے تو خیمہ کے لئے ستون کی طرح ہے کہ جو مسلمان نماز نہیں پڑھتا اور نماز کو اہمیت نہیں دیتا، اس کا اسلام اور مسلمان ہونا، بے ستون خیمہ کی طرح ہے۔
نماز اور دیگر اعمال کا باہمی تعلق اتنا گہرا ہے کہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ": أول ما يحاسب به العبد الصلاة فإن قبلت قبل ما سواها"[15]، "پہلی چیز جس کے بارے میں بندہ سے حساب لیا جائے گا، نماز ہے، پس اگر نماز قبول ہوگئی تو دیگر اعمال بھی قبول ہوجائیں گے۔"، شہید مطہری اس روایت میں اعمال کی قبولیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: "یعنی انسان کے دیگر اعمال کی قبولیت کی شرط، نماز کی قبولیت ہے، بہ ایں معنی کہ اگر انسان نیکیاں بجالائے اور نماز نہ پڑھے، یا نماز پڑھے لیکن ایسی نماز جو نادرست اور نامقبول ہو جو رد کردی جائے تو اس کی دیگر نیکیاں بھی رد کردی جائیں گی، انسان کی دیگر نیکیوں کی قبولیت کی شرط، اس کی نماز کا قبول ہونا ہے"[16]۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) کی عنوان بحث والی حدیث جیسی دیگر احادیث بھی پائی جاتی ہیں جو دوسرے معصومین (علیہم السلام) سے نقل ہوئی ہیں:
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: " الصلاة عمود دينكم[17]"، "نماز تمہارے دین کا ستون ہے"۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن بی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " اللّهَ اللّهَ في الصَّلاةِ؛ فإنّها عَمودُ دِينِكُم "[18]، "اللہ اللہ نماز کا خیال رکھو نماز تمہارے دین کا ستون ہے"۔
نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے: " اُوصِيـكُم بالصَّـلاةِ و حِفظِها، فإنّها خَيرُ العَمَلِ و هِيَ عَمودُ دِينِكُم "[19]، "میں تمہیں نماز اور اس کی حفاظت کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ نماز بہترین عمل ہے اور یہ تمہارے دین کا ستون ہے"۔
دوسری حدیث میں حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نماز کو اسلام کی بنیادوں میں سے ایک، شمار کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں: " بُنِيَ الإسلامُ على خَمْسَةِ أشْياءَ : عَلى الصَّلاةِ ، و الزَّكاةِ ، و الحَجِّ ، و الصّومِ ، و الوَلايةِ. قالَ زُرارَةُ : فقلتُ : و أيُّ شَيْءٍ مِنْ ذلِكَ أفْضَلُ ؟ فقالَ : الوَلايةُ أفْضَلُ؛ لأنّها مِفْتاحُهُنَّ ، و الوالي هُوَ الدَّليلُ عَلَيْهِنَّ "[20]، "اسلام پانچ چیزوں پر قائم ہے: نماز، زکات، حج، روزہ اور ولایت پر، زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کون سی چیز ان میں سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ولایت افضل ہے، کیونکہ ولایت ان کی کنجی ہے، اور صاحب ولایت ان کی طرف راہنما ہے"۔
نماز کے سلسلہ میں مذکورہ بالا احادیث اور اس آخری حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نماز اگرچہ دین کا ستون ہے لیکن کوئی ایسی چیز بھی ہے جو نماز سے افضل ہے اور اس کا مقام نماز سے زیادہ ہے، وہ ولایت ہے۔ آپ نے ولایت کی افضلیت کی دلیل بھی بیان فرمادی کہ نماز، زکات، حج اور روزہ کی کنجی ولایت ہے اور صاحب ولایت ان چیزوں کی طرف جن میں سے ایک نماز ہے، راہنمائی کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر انسان ولایت پر ایمان لائے گا تب صاحب ولایت اور امام سے نماز اور دیگر مذکورہ چیزوں کی طرف راہنمائی حاصل کرپائے گا، ورنہ اگر ولایت پر ایمان ہی نہ لائے تو کس کے ذریعے نماز اور دیگر امور کی طرف راہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنے اسلام کی بنیاد کو قائم کرے گا؟ جو ولایت پر ایمان نہیں لاتا اگرچہ نماز، زکات، روزہ اور حج کو باقاعدہ بجالاتا رہے، لیکن ان سب کی کنجی اس کے پاس نہیں ہے، جب کنجی اور سب بنیادوں میں سے افضل بنیاد اس کے پاس نہیں ہے تو اس کا اسلام کس چیز پر قائم ہے؟!
یہاں تک واضح ہوگیا کہ دین کا ستون نماز ہے اور نماز کی کنجی ولایت ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کے لئے صرف نماز ہی کافی نہیں بلکہ ساتھ ولایت کی بھی ضرورت ہے۔
ولایت صرف سیاسی اور معاشرتی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ولایت کی وسعت اور پھیلاو اتنا زیادہ ہے کہ ہر آدمی کے اعمال پر چھائی ہوئی ہے اور اعمال کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے، یہاں تک کہ انسان کا ولایت پر ایمان جتنا طاقتور ہوگا اتنی اس کی عبادت زیادہ مقام کی حامل ہوگی، اور اگر وہ منجانب اللہ مقرر امام کی امامت پر ایمان نہیں رکھتا ہوگا تو اس کا کوئی عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگا۔ چنانچہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ لَمْ يَتَوَلَّنا لَمْ يَرْفَعِ اللَّهُ لَهُ عَمَلًا "[21]، " جو شخص ہماری ولایت کو قبول نہ کرے، اللہ اس کے عمل کو بلند نہیں کرتا (قبول نہیں کرتا)"۔
نتیجہ: جو چیز قائم ہو اسے ستون کی ضرورت ہوتی ہے جس کے سہارے پر وہ چیز کھڑی ہوسکے، دین اسلام کو بھی ستون کی ضرورت ہے، اس کا ستون نماز ہے، اگر انسان کی نماز اللہ تعالی کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہو تو اس کا دین قائم ہے ورنہ نماز چونکہ ستون کی حیثیت رکھتا ہے تو جس کی نماز گری ہوئی ہو اس کا دین بھی گرا ہوا ہے، اور نماز بھی تب درجہ قبولیت پر پہنچ سکتی ہے کہ ولایت اہل بیت (علیہم السلام) پر ایمان ہو، لہذا جس کے پاس ولایت نہیں اس کے پاس نہ نماز ہے نہ اسلام ہے، لیکن جس کے پاس ولایت ہے اسے خیال رکھنا چاہیے کہ نماز کو انہی آداب و شرائط کے ساتھ بجالائے جو اہل بیت (علیہم السلام) نے ارشاد فرمائے ہیں تا کہ اس کی نماز جو ستون ہے، اس کے اسلام کو قائم کرسکے۔
[1] جیسے (توبه/۱۰۳)، (احزاب/۵۶)، (بقره/۱۵۷)۔
[2] عنکبوت/۴۵۔
[3] اعلی/ ۱۵-۱۴۔
[4] بقره/۴۵۔
[5] مدثر/۶۲۔
[6] ماعون/۴۔۵۔
[7] ابراهیم/۴۰۔
[8] مریم/۵۵ انبیا/۷۳۔
[9] طه/۱۴۔
[10] آل عمران/۳۹۔
[11] مریم/۳۱۔
[12] هود/۸۷۔
[13] لقمان/ ۱۷۔
[14] وسائل الشيعه: ج۳، ص۱۷، ح۱۲۔
[15] مستدرك سفينة البحار، ج۲، ص۲۸۴۔
[16] گفتارهای معنوی ، ج۱، ص۵۶۔
[17] الكافي: 2 / 19 / 5۔
[18] نہج البلاغہ، مکتوب ۴۷۔
[19] بحار الأنوار : 82/ 209/20۔
[20] الكافي : 2 / 18 /5۔
[21] مرآة العقول، ج۵، ص۱۲۰۔
Add new comment