مسلمان بھائیو اور بہنو! اس سال حج کے اجتماعات میں مشتاق و بااخلاص ایرانی حاجیوں کی کمی ہے، مگر ان کے دل ساری دنیا کے حاجیوں کے ساتھ موجود، ان کی بابت فکرمند اور دعا کر رہے ہیں کہ طاغوتوں کا شجرہ ملعونہ انھیں کوئی گزند نہ پہنچائے۔ اپنے ایرانی بھائیوں اور بہنوں کو دعاؤں، عبادتوں اور مناجاتوں کے وقت ضرور یاد رکھئے اور اسلامی معاشروں کی مشکلات کے ازالے اور امت اسلامیہ کے استکباری طاقتوں، صیہونیوں اور ان کے آلہ کاروں کی دست برد سے دور ہو جانے کی دعا کریں۔ میں سال گذشتہ منٰی اور مسجد الحرام کے شہیدوں اور 1987ء کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے ان کے لئے مغفرت، رحمت اور بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں اور حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے امت مسلمہ کے ارتقا اور دشمنوں کے فتنہ و شر سے مسلمانوں کی نجات کا طلبگار ہوں۔
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمدلله رب العالمین و صلّی الله علی سیدنا محمد و آله الطیبین و صحبه المنتجبین
و من تبِعَهم بِاِحسانٍ الی یوم الدین.
دنیا بھر کے مسلمان بھائیو اور بہنو!
مسلمانوں کے لئے ایام حج، لوگوں کی نظر میں عظمت و شکوہ اور افتخار کے ایام اور خالق کی بارگاہ میں دل کو منور کرنے اور خشوع و مناجات کے ایام ہیں۔ حج ایک ملکوتی، دنیاوی، خدائی اور عوامی فریضہ ہے۔ ایک طرف تو یہ فرامین؛ «فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبائکمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا»(1) اور «وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ»(2) اور دوسری جانب یہ خطاب: «الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ»(3) حج کے لا متناہی اور گونا گوں پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔ اس عدیم المثال فریضے میں، زمان و مکان کا تحفظ آشکارا نشانیوں اور درخشاں ستاروں کی مانند انسانوں کے دلوں کو سکون و طمانیت عطا کرتا ہے اور عازمین حج کو عدم تحفظ کے عوامل کے حصار سے جو توسیع پسند ظالموں کی جانب سے ہمیشہ عام انسانوں کے لئے سوہان روح بنے رہے ہیں، باہر نکال لیتا ہے اور ایک معین دورانئے میں انھیں احساس تحفظ کی لذت سے آشنا کراتا ہے۔ حج ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو ایک تحفے کے طور پر پیش کیا ہے، عزت، روحانیت، اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے؛ یہ بدخواہوں اور دشمنوں کے سامنے امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قدرت پر ان کے اعتماد کی نشانی ہے اور بدعنوانی، حقارت اور اقوام کو مستضعف و کمزور بنائے رکھنے کی دلدل سے جسے دنیا کی تسلط پسند اور اوباش طاقتیں انسانی معاشروں پر مسلط کر دیتی ہیں، مسلمانوں کے طویل فاصلے کو نمایاں کرتا ہے۔
اسلامی اور توحیدی حج، «أَشِدّاءُ عَلَى الْكُفّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ»(4) کا مظہر ہے۔ مشرکین سے اظہار بیزاری اور مومنین کے ساتھ یکجہتی اور انس کا مقام ہے۔ جن لوگوں نے حج کی اہمیت کو گھٹا کر اسے محض ایک زیارتی و سیاحتی سفر سمجھ لیا ہے اور جو ایران کی مومن و انقلابی قوم سے اپنی دشمنی اور کینے کو "حج کو سیاسی رنگ دینے" جیسی باتوں کے پردے میں چھپا رہے ہیں، وہ ایسے حقیر اور معمولی شیطان ہیں، جو بڑے شیطان امریکہ کے اغراض و مقاصد کو خطرے میں پڑتے ہوئے دیکھ کر کانپنے لگتے ہیں۔ سعودی حکام جو اس سال سبیل اللہ اور مسجد الحرام کے راستے میں رکاوٹ بنے ہیں اور جنھوں نے خانہ محبوب کی سمت مومن و غیور ایرانی حاجیوں کا راستہ بند کر دیا ہے، وہ ایسے رو سیاہ اور گمراہ افراد ہیں جو ظالمانہ اقتدار کے تخت پر اپنی بقا کو عالمی مستکبرین کے دفاع، صیہونزم اور امریکہ کی ہمنوائی اور ان کے مطالبات پورے کرنے کی کوششوں پر موقوف سمجھتے ہیں اور اس راہ میں کسی بھی طرح کی خیانت کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے۔
اس وقت منٰی کے ہولناک سانحے کو تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو رہا ہے، جس میں کئی ہزار افراد عید قربان کے دن، احرام کے لباس میں، شدید دھوپ میں، تشنہ لب اور مظلومیت کے عالم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سے کچھ ہی دن قبل مسجد الحرام میں بھی کچھ لوگ عبادت، طواف اور نماز کے عالم میں خاک و خوں میں غلطاں ہوگئے۔ سعودی حکام دونوں سانحوں میں قصوروار ہیں۔ فنی ماہرین، مبصرین اور تمام حاضرین کا اس پر اتفاق رائے ہے۔ بعض اہل نظر افراد کی جانب سے سانحے کے عمدی ہونے کا خیال بھی ظاہر کیا گيا ہے۔ نیم جاں ہوچکے زخمیوں کو، جن کے مشتاق قلوب اور فریفتہ وجود عید قربان کے دن ذکر اللہ اور آیات الہیہ کے ترنم میں ڈوبے ہوئے تھے، بچانے میں کوتاہی اور تساہلی بھی طے شدہ اور مسلمہ حقیقت ہے۔ قسی القلب اور مجرم سعودی افراد نے انھیں جاں بحق ہوچکے لوگوں کے ساتھ بند کنٹینروں میں محبوس کر دیا اور انھیں علاج، مدد یہاں تک کہ ان کے سوکھے ہونٹوں تک پانی کے چند قطرے پہنچانے کے بجائے انھیں موت کے منہ میں پہنچا دیا۔ کئی ملکوں کے کئی ہزار خاندان اپنے عزیزوں سے محروم ہوگئے اور ان ملکوں کی قومیں سوگوار ہوگئیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے تقریباً پانچ سو افراد شہداء میں شامل تھے۔ ان کے اہل خانہ کے دل ہنوز مجروح اور سوگوار ہیں اور قوم بدستور غمگین و خشمگین ہے۔
سعودی حکام معافی مانگنے، اظہار ندامت اور اس ہولناک سانحے کے براہ راست قصورواروں کے خلاف عدالتی کارروائی کرنے کے بجائے، حد درجہ بے شرمی اور بے حیائی سے حتی ایک اسلامی بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل سے بھی انکاری ہوگئے۔ ملزم کی پوزیشن میں کھڑے ہونے کے بجائے مدعی بن گئے اور اسلامی جمہوریہ سے نیز کفر و استکبار کے خلاف بلند ہونے والے ہر پرچم اسلام سے اپنی دیرینہ دشمنی کو اور بھی خباثت اور ہلکے پن کے ساتھ بے نقاب کیا۔ ان کی پروپیگنڈہ مشینری؛ ان کے سیاستدانوں سے لیکر جن کا امریکہ اور صیہونیوں کے سامنے رویہ عالم اسلام کے لئے بدنما داغ ہے، ان کے غیر متقی اور حرام خور مفتیوں تک جو قرآن و سنت کے خلاف آشکارا طور پر فتوے دیتے ہیں، اسی طرح ان کے پٹھو ابلاغیاتی اداروں تک، جن کا پیشہ وارانہ احساس ذمہ داری بھی ان کے جھوٹ اور دروغ گوئی میں رکاوٹ نہیں بنتا، اس سال ایرانی حجاج کرام کو حج سے محروم کرنے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو مورد الزام ٹھہرانے کی عبث کوشش کر رہے ہیں۔
فتنہ انگیز حکام جنھوں نے شیطان صفت تکفیری گروہوں کی تشکیل اور انھیں وسائل سے لیس کرکے دنیائے اسلام کو خانہ جنگی میں مبتلا، بے گناہوں کو قتل اور زخمی کیا ہے اور یمن، عراق، شام اور لیبیا اور بعض دیگر ملکوں کو خون سے نہلا دیا ہے، اللہ سے بیگانہ سیاست باز جنھوں نے غاصب صیہونی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے اور فلسطینیوں کے جانکاہ رنج و مصیبت پر اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور اپنے مظالم و خیانت کا دائرہ بحرین کے گاؤں اور شہروں تک پھیلا دیا ہے، وہ بے ضمیر اور بے دین حکام جنھوں نے منٰی کا وہ عظیم سانحہ رقم کیا اور حرمین کے خادم ہونے کے نام پر محفوظ حرم خداوندی کے حریم کو توڑا اور تقدس کو پامال کیا اور عید کے دن خدائے رحمان کے مہمانوں کو منٰی میں اور اس سے پہلے مسجد الحرام میں خاک و خون میں غلطان کیا، اب حج کو سیاسی رنگ نہ دینے کی بات کر رہے ہیں اور دوسروں پر ایسے بڑے گناہوں کا الزام لگا رہے ہیں، جن کا ارتکاب خود انھوں نے کیا ہے یا اس کا سبب بنے ہیں۔
وہ قرآن کے اس بصیرت افروز بیان؛ «وَإِذا تَوَلّىٰ سَعىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيها وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لا يُحِبُّ الْفَسادَ»(5) «وَإِذا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهادُ»(6). کے مکمل مصداق ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق اس سال بھی انھوں نے ایرانی حجاج اور بعض دیگر اقوام پر راستہ بند کرنے کے ساتھ ہی دیگر ملکوں کے حجاج کو امریکہ اور صیہونی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے غیر معمولی کنٹرولنگ سسٹم کے دائرے میں رکھا ہے اور محفوظ خانہ خداوندی کو سب کے لئے غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ عالم اسلام بشمول مسلمان حکومتیں اور اقوام، سعودی حکام کو پہچانیں اور ان کی گستاخ، بے دین، مادہ پرست اور (استکبار کے تئیں ان کی) فرمانبردار ماہیت کا بخوبی ادراک کریں اور عالم اسلام کی سطح پر انھوں نے جو جرائم انجام دیئے ہیں، ان کے سلسلے میں ان حکام کا گریبان پکڑیں اور ہرگز نہ چھوڑیں۔ اللہ کے مہمانوں کے ساتھ ان کے ظالمانہ رویے کے باعث حرمین شریفین اور امور حج کے انتظام و انصرام کے لئے کوئی بنیادی راہ حل تلاش کریں۔ اس فریضے کے سلسلے میں کوتاہی امت مسلمہ کے مستقبل کو زیادہ بڑی مشکلات سے دوچار کر دے گی۔
مسلمان بھائیو اور بہنو! اس سال حج کے اجتماعات میں مشتاق و بااخلاص ایرانی حاجیوں کی کمی ہے، مگر ان کے دل ساری دنیا کے حاجیوں کے ساتھ موجود، ان کی بابت فکرمند اور دعا کر رہے ہیں کہ طاغوتوں کا شجرہ ملعونہ انھیں کوئی گزند نہ پہنچائے۔ اپنے ایرانی بھائیوں اور بہنوں کو دعاؤں، عبادتوں اور مناجاتوں کے وقت ضرور یاد رکھئے اور اسلامی معاشروں کی مشکلات کے ازالے اور امت اسلامیہ کے استکباری طاقتوں، صیہونیوں اور ان کے آلہ کاروں کی دست برد سے دور ہو جانے کی دعا کریں۔ میں سال گذشتہ منٰی اور مسجد الحرام کے شہیدوں اور 1987ء کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے ان کے لئے مغفرت، رحمت اور بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں اور حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ پر درود و سلام بھیجتے ہوئے امت مسلمہ کے ارتقا اور دشمنوں کے فتنہ و شر سے مسلمانوں کی نجات کا طلبگار ہوں۔
و بالله التوفیق و علیه التکلان
آخر ذی القعده ۱۴۳۷
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ سوره بقره، آیت ۲۰۰ (تو جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اس طرح اب اللہ کا ذکر کرو۔)
(2)۔ سوره بقره، آیت ۲۰۳ (یہ گنتی کے چند روز ہیں، جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئیں۔)
(3)۔ سوره حج، آیت ۲۵ (جسے ہم نے سب لوگوں کے لئے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔)
(4)۔ سوره فتح، آیت ۲۹(وہ کفار پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔)
(5)۔ سوره بقره، آیت ۲۰۵ (جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔)
(6)۔ سوره بقره، آیت ۲۰۶ (اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے، ایسے شخص کے لئے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔)
http://urdu.sahartv.ir/news/%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-i246667
Add new comment