خلاصہ: اس مضمون میں امام محمد باقر(علیہ السلام) کے ایک مناطرہ کو بیان کیا گیا جو آپ نے ایک عیسائی بزرگ عالم دین سے کیا تھا، جس کے بعد اس عیسائی بزرگ عالم دین نے اسلام کو قبول کیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
أئمہ(علیہم السلام) نے مخلتلف انداز سے دین مبین اسلام کی تبلیغ کی ہے، جن میں سے ایک، دوسرے مذاھب کے بزرگ علماء کے ساتھ گفتکو اور مناطرہ ہے، ہمارے اماموں نے اس طرح کی تبلیغ کے ذریعہ کئی لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا، ان مناطروں میں سے ایک امام باقر(علیہ السلام) کا مناطرہ ہے جو آپ نے ایک عیسائی، بزرگ عالم دین سے کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عیسائی بزرگ عالم دین نے اسلام کو قبول کیا۔
اس گفگو کی تفصیل حسب ذیل ہے:
امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: ہشام ابن عبد الملک نے والی مدینہ کو لکھا کہ محمد ابن علی(علیہما السلام) کو شام بھیجو۔ اس کے بعد ہم شام کے لئے نکل گئے، یہاں تک کہ ہم لوگ جناب شعیب(علیہ السلام) کے شھر مدین پہونچے، وہاں ہم نے ایک بہت بڑے خانقاہ کو دیکھا لوگ جس کے اطراف جمع تھے جو موٹے اونی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ہم لوگوں نے بھی ان لوگوں کی طرح لباس پہن لیا اور ان لوگوں کے ساتھ خانقاہ میں داخل ہوگئے، ہم نے وہاں ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو بہت زیادہ بوڑھا تھا اس نے ہماری طرف دیکھا اور میرے بابا سے مخاطب ہو کر کہا:
آپ ہماری امت میں سے ہو یا اس مرحوم امت میں سے ہو؟
بابا نے فرمایا: میں اس مرحوم امت میں سے ہوں۔
اس نے پوچھا: آپ عالموں میں سے ہیں یا جاہلوں میں سے؟
بابا نے فرمایا: عالموں میں سے۔
اس نے کہا : کسی مسئلہ کے بارےمیں آپ سے کچھ پوچھوں؟
بابا نے فرمایا:ہاں پوچھو؛
اس نے سوال کیا: جب جنت کی نعمتوں سے استفادہ کیا جائے گا تو کیا اس میں کسی چیزکی کوئی کمی ہوگی؟
بابا نے فرمایا: نہیں۔
اس نے پوچھا: کیا اس کی دنیا میں کوئی مثال موجود ہے؟
بابا نے فرمایا: کیا توریت، زبور اور قرآن اس طرح نہیں ہیں، ان سے جتنا بھی استفادہ کیا جائے وہ کم نہیں ہوتے۔
اس نے کہا: ہاں آپ عالموں میں سے ہیں۔ پھر اس نے سوال کیا: جنت والےجب کھاتے پیتے ہیں تو کیا انہیں ضرورت کا احساس نہیں ہوتا؟
بابا نے کہا: نہیں
اس نے کہا: کیا اس کی دنیا میں کوئی مثال ہے؟
بابا نے کہا: ماں کے پیٹ میں جو بچہ ہوتا ہے،وہ کھاتا اور پیتا ہے لیکن اسے کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا۔
اس مرد نے کہا: آپ نے صحیح فرمایا، اور اس نے بہت زیادہ سوالات کئے اور بابا نے ان تمام سوالات کے جوابات دیئے، اس کے بعد وہ پیر مرد غش کھا کر گرپڑا اور میرے والد وہاں سے اٹھے اور اس خانقاہ سے باہر نکل گئے۔
کچھ لوگ ہمارے پیچھے آئے اور ہم سے کہا کے وہ آپ سے ملنا چاہنے ہیں۔
بابا نے کہا: ہمیں ان سے کوئی کام نہیں ہے، اگر ان کو ہم سے کام ہے تو وہ ہمارے پاس آئے۔
وہ لوگ لوٹ گئے اور اس بوڑھے مرد کو لیکر آئے اور انہیں بابا کے سامنے بٹھا دیا، اس نے ہم لوگوں سے ہمارا نام اور نسب پوچھا، جب اسے ہمارے نام و نسب کا علم ہوا کے ہم پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی آل میں سے ہیں، اس نے اپنی زبان پر شھادتین کو جاری کیا اور اسلام کو قبول کیا[۱]۔
--------------------------------------------------------------------
حوالہ:
[۱]. بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، دار إحياء التراث العربي، چاپ دوم، بيروت، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۱۵۲۔
Add new comment