خلاصہ: غدیر ایک اسی حقیقت ہے جو روز روشن کی طرح واضح ہے، اسی لئے اہل سنت کے بزرگ علماء نے بھی حدیث غدیر کو اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے، اس مضمون میں اہل سنت کے ایک بزرگ عالم، احمد ابن حنبل سے کی نقل کی ہوئی روایت کو نقل کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ رسالت میں سوائے حکم ولایت کے کوئی ایک بھی ایسا حکم یا الہی دستور نہیں ملتا جو اتنے تفصیلی مقدمات اور اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ تپتے صحراء میں دھوپ کی شدید طمازت کے باوجود حاجیوں کے سوا لاکھ کے مجمع کو یکجا جمع کرنا اور رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ایک طولانی خطبہ بیان کرنا صرف ایک حکم کے لئے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کا یہ الہی حکم دیگر تمام احکام سے ممتاز اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے اکثر بزرگ علماء نے مسئلہ غدیر اور حدیث غدیر سے متعلق گفتگو کی ہے لیکن حدیث کی صحت کا اقرار کرنے کے باوجود مختلف تاویلات کی بنا پر انہوں نے امیر المومنین علی(علیہ السلام) کی امامت اور بلافصل خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم اس مختصر تحریر میں اہل سنت کے مشھور عالم، امام حنبل کی نگاہ میں حدیث غدیر کو بیان کر رہے ہیں۔
احمد حنبل نے اپنی مسند میں یوں بیان کیا ہے:
احمد ابن حنبل نے مسند میں بیان کیا ہے: « الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ص فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ فَنُودِيَ فِينَا الصَّلَاةَ جَامِعَةً وَ كُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ ص تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ع فَقَالَ أَ لَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ قَالُوا بَلَى قَالَ أَ لَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ قَالُوا بَلَى قَالَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ع فَقَالَ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ- اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ قَالَ فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ هَنِيئاً لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَ أَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ[۱] براء ابن عازب کا کہنا ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہمراہ تھے، ہم لوگ غدیر خم کے مقام پر پہونچے، ایک آواز دی گئی الصلاۃ جامعۃ [نماز جماعت کے لیے تیار ہو جاؤ] دو درختوں کے نیچے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے لیے انتظام کیا گیا، رسول خدا نے نماز بجا لائی اور پھر حضرت علی(علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں آپ ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں، خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے۔ پھر عمر آپ کے گلے ملے اور کہا مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے، آپ نے صبح و شام کی ہے اس حالت میں کہ آپ ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہیں»۔
اسی کتاب میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد دوسری سندوں کے ساتھ اسی روایت کو دوبارہ بیان کیا ہے، دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ"من کنت مولاہ" کو تین دفعہ اس میں دہرایا: «أن تعلمون انى اولى بالمؤمنین من انفسهم ثلاث مرات؛ تین دفعہ اس جملہ کو دہرایا: کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نہیں ہوں».
اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں پر اہل سنت کے صرف ایک بزرگ عالم دین کی روایت کو نقل کیا گیا ہے، اہل سنت کے متعدد منابع میں اس روایت کو نقل کیا گیا ہے جس کو بیان کرنے کی اس مختصر تحریر میں کنچائش نہیں ہے۔
نکتہ:
حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا لیکن یہ چیز یعنی ان کا اپنی کتابوں میں نقل نہ کرنا ہرگز حدیث غدیر کی سند کے ضعیف ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لئے کہ بہت ساری روایتیں جو خود بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہیں اور ان کی سندوں میں کوئی مشکل نہیں ہے انہوں نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے بعد کئی مستدرک لکھی گئیں۔ اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ہو جاتیں تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم رکھنے کے بعد دوسری صحاح سے بے نیاز نہیں ہو جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ مسند أحمد، الجزء الرابع، ص 281، كتاب فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل، ج ۲، ص۵۹۶، ح۱۰۱۶۔ (اس کتاب سے اس حوالہ کو نقل کیا گیا ہے(ابن بطريق، يحيى ابن حسن، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار، مؤسسة النشر الاسلامي، ۱۴۰۷ق، النص، ص۹۲).
مأخذ:
http://ur.abna24.com/cultural/islamic-issus/archive/2015/10/01/713235/st...
Add new comment