خلاصہ : اکثر لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ میں جو انگوٹھی تھی وہ امام نے، امام سجاد علیہ السلام کو دے دی تھی تو پھر جو انگوٹھی لوٹی گئی وہ کونسی تھی؟ تو ہم نے اسے روایات کی مدد سے مختصر طور پر بیان کیا ہے۔
جب ابا عبدالله الحسین ( علیه السلام ) کی شھادت ہوگئی تو اس بے رحم فوج نے لوٹ مچا دی، کسی نے آپ کی عبا تو کسی نے عمامہ اور کسی نے زرہ تو کسی نے لباس حتی نعلین تک نہ چھوڑے۔ اسی دوران بجدل ابن سلیم آگے بڑھا اور اس نے امام (علیہ السلام) کی انگوٹھی کی لالچ میں امام (علیہ السلام) کی انگلی کاٹ دی اور اس بے رحم ظلم کو اکثر تاریخی کتب میں بیان کیا گیا ہے۔ [1]
اور اسی طرح ہمارے پاس دو روایتیں ہیں کہ جن میں ملتا ہے کہ محمد ابن مسلم نقل کرتے ہیں کہ امام حسین (علیہ السلام) کی انگوٹھی، امام سجاد (علیہ السلام) کے پاس آئی اور ان سے امام باقر (علیہ السلام) کے پاس آئی اور پھر وہی انگوٹھی امام صادق (علیہ السلام) تک پہنچی:
پہلی روایت: شیخ صدوق نے محمد ابن مسلم سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے امام صادق (علیه السلام ) سے سوال کیا کہ مولا میں نے سنا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کی انگوٹھی لوٹ لی گئی کیا صحیح سنا ہے؟
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ وہ انگوٹھی میرے پاس ہے کیونکہ امام حسین (علیہ السلام) نے وہ انگوٹھی امام سجاد (علیہ السلام) کو دی تھی اور انہوں نے اپنے بیٹے امام محمد باقر (علیہ السلام) کو دی اور پھر میرے بابا نے وہ مجھے دی ہے اور میں اسے نماز کے دوران پہنتا ہوں۔ [2]
شیخ صدوق نے یہ لکھا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام ) کے پاس دو انگوٹھیاں تھیں، ایک وہ کہ جو یادگار تھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اور دوسری وہ کہ جو شھادت کے بعد بجدل نے لوٹ لی اور اسی طرح شیخ عباس قمی نے بھی نقل کیا ہے کہ جب امام صادق (علیہ السلام ) سے کہا گیا کہ امام حسین (علیہ السلام) کی انگوٹھی تو بجدل نے لوٹ لی تھی تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا : ہاں وہ اور انگوٹھی تھی اور جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی انگوٹھی تھی وہ یہ ہے۔ [3]
دوسری روایت: محمد ابن مسلم کہتے ہیں: جمعه کے دن امام صادق( علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو نماز کا وقت تھا میں نے امام (علیہ السلام) کے ساتھ نماز ادا کی اور نماز کے بعد میں نے امام (علیہ السلام) کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھی، اس انگوٹھی پر یہ عبارت لکھی تھی : «لا اله الا الله عدّة للقاء الله» جب میں نے امام (علیہ السلام) سے اس انگوٹھی کے بارے سوال کیا تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ انگوٹھی میرے جد امام حسین (علیہ السلام) سے مجھ تک پہنچی ہے۔ [4]
البتہ یہ بات بھی ذکر کرتا چلوں کہ یہ انگوٹھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی انگوٹھی تھی اور ان سے امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو ملی اور انہوں نے اپنے بیٹے امام حسن (علیہ السلام) کو دی اور انہوں نے اسے امام حسین (علیہ السلام) کو دیا۔
اب آتے ہیں ان سب رایتوں کی طرف جن میں انگوٹھی کا ذکر ہوا ہے:
1. ایک روایت میں آیا ہےکہ امام حسین (علیہ السلام) کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس کے نگینہ پر یہ لکھا تھا : «إنّ الله بالغ امره»۔[5]
2. ایک روایت میں آیا ہےکہ امام حسین (علیہ السلام) کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس کے نگینہ پر یہ لکھا تھا: «علمت فاعمل»۔[6]
3. امام صادق (علیہ السلام) سے جب سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: میرے جد امام حسین (علیہ السلام) کے پاس دو انگوٹھیاں تھیں۔ [7]
اسی طرح ناسخ التواریخ والے نے بھی لکھا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کے پاس دو انگوٹھیاں تھیں، ایک وہ کہ جو امام سجاد (علیہ السلام) کے پاس تھی اور ایک وہ کہ جو بجدل نے لوٹ لی۔ [8]
نتیجہ
ان سب روایات کو دیکھنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دونوں کی روایات اپنے مقام پر صحیح ہیں کیونکہ کہ امام حسین (علیہ السلام) کے پاس دو انگوٹھیاں تھیں ایک وہ کہ جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے منسوب ہے وہ ایک امام سے دوسرے امام تک چلی آ رہی ہے اور آج وہ امام زمانہ (عج) کے پاس ہے اور ایک وہ کہ جو شھادت سید الشھدا (علیہ السلام) کے بعد لوٹ لی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1]. سید ابن طاووس، اللهوف، تهران، جهان، 1348ش، ص130؛ قمی، عباس، نفس المهموم، ترجمه علامه شعرانی، قم، هجرت، چاپ اول، 1381ش، ص325؛ ابن نما حلی، جعفر، مثیر الاحزان، قم، انتشارات مدرسه امام مهدی، چاپ سوم، 1406ق، ص76؛ مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، بیروت، موسسه الوفاء، 1404ق، ج45، ص57؛ محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء،مرکز نشر کتاب، بی تا، ج2، ص231، سپهر، محمد تقی، ناسخ التواریخ، ج3، ص9۔
[2]. صدوق، محمد، امالی،کتابخانه اسلامیه، چاپ چهارم، 1362ش، ص144۔
[3]. نفس المهموم، ترجمه علامه شعرانی، قم، هجرت، چاپ اول، 1381ش، ص326۔
[4]. کلینی، محمد، اصول کافی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، 1365ش، ج6،ص 474۔
[5]. نوری، حسین، مستدرک الوسائل، قم، آل البیت، چاپ اول، 1408ق، ج3، باب 38، ص307، روایت 10۔
[6]. صدوق، محمد، امالی، کتابخانه اسلامیه، چاپ چهارم، 1362ش، ص131۔
[7]. صدوق، محمد، امالی،کتابخانه اسلامیه، چاپ چهارم، 1362ش، ص145۔
[8]. ناسخ التواریخ، محمد تقی، ج1، ص39۔
Add new comment